لمحاتِ عبرت

وقت سب سے بڑا معلم ہے لیکن طالب علم رخصت پر ہیں۔ قبل از رمضان اور بعداز رمضان المبارک صورتحال ایک جیسی ہے کہ یہ لمحات بنا احتیاط گزر رہے ہیں! سماجی دوری اور فاصلہ اختیار کرنے کی تجاویز‘ مشورے‘ ہدایات‘ اَحکامات اور مثالیں کچھ بھی کام نہیں آ رہا اور کراچی سے پشاور تک پاکستان گویا ’اجتماعی خودکشی‘ پر آمادہ ہے‘ جس کا شکار ہونے والوں کی آخری رسومات میں وہ تمام دوست‘ خیرخواہ احباب‘ رشتے دار اور حلقہ¿ ارباب کے تعلق دار بھی شریک نہیں ہوتے‘ جنہوں نے اِسے ’کورونا وائرس‘ کے خلاف بہادری کا مظاہرہ کرنے کے لئے اُکسایا ہوتا ہے۔ عالمی وبا سے دنیا کے دیگر حصوں کی طرح پاکستان میں بھی امیروغریب‘ عوام و خواص اور ہر مکتبہ فکر و بودوباش سے تعلق رکھنے والے پراسرار وبا کا شکار ہو رہے ہیں اور ایسی لاتعداد مثالیں ہمارے گردوپیش میں پھیلی ہیں لیکن اُنہیں دیکھنے کے باوجود نہیں دیکھا جا رہا اور نہ ہی اِن سبق آموز واقعات سے عبرت حاصل کی جا رہی ہے۔ تازہ ترین مثال رکن قومی اسمبلی منیر اورکزئی کی ہے‘ جنہیں چند ہفتے قبل کورونا وبا سے ملتی جلتی بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے بعد سماجی دوری اور علاج معالجہ تجویز کیا گیا تھا لیکن خیبرپختونخوا کے پسماندہ قبائلی ضلع سے تعلق رکھنے والے اِس منجھے ہوئے سیاستدان اور دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے قانون ساز ایوان زرین میں نمائندگی کرنےوالے دانشور نے دیگر ہم عصروں کی طرح طبی و غیر طبی مشورے سُنے اَن سُنے کر دیئے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ کیا اب بھی اِس بات میں شک کی گنجائش باقی ہے کہ کورونا وائرس حقیقت ہے‘ یہ تیزی سے پھیل رہا ہے اور احتیاط نہ کرنے کی صورت نتیجہ جان لیوا ہوتا ہے!

دو جون کی صبح‘ منیر اورکزئی کے اہل خانہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر یہ خبر دی گئی کہ وہ حسب معمول نماز فجر کی ادائیگی کےلئے نہیں اُٹھے اور جب اُنہیں بیہوشی کی حالت میں ٹل ہسپتال لیجایا گیا تو ڈاکٹروں نے اُن کی موت کی تصدیق کر دی‘ حالات و شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ منیر اورکزئی ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ کورونا وائرس سے متاثر ہوئے۔ پہلی مرتبہ اپریل میں جب اُن میں کورونا جرثومے کی تشخیص ہوئی تو اُنہوں نے کچھ عرصے کےلئے سماجی دوری اختیار کی اور صحت یاب ہو گئے‘ اِس کے بعد پندرہ مئی کو قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے بعد اُنہیں دوبارہ کورونا وبا لاحق ہوئی لیکن اِس مرتبہ چونکہ ظاہری علامات زیادہ شدید نہ تھیں اِس لئے اُنہوں نے سماجی دوری اور اپنی سیاسی و جماعتی سرگرمیوں سے خود کو الگ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اُن کے اردگرد مشیروں کی قطعی کوئی کمی نہیں تھی بلکہ ایک سے بڑھ کر ایک دانشور ہونے کے دعویدار اُن کی محفلوں میں دیکھے جاتے تھے کہ جنہیں اگر بولنے کا موقع ملے تو کئی کئی دن تک بولتے رہیں اور اُن کے لئے موضوعات کی بھی کوئی کمی نہیں کہ چیونٹی سے لیکر ستاروں اور ستاروں سے لیکر کہکشاو¿ں تک ہر چیز کے بارے میں اُن کے دلائل اور علم لامتناہی دکھائی دیتا تھا۔

 کاش کہ علم کی بنیاد مطالعے اور تحقیق جیسی ٹھوس بنیادوں پر بھی ہوتی تو طالب سے عالم بننے تک کے عمل میں علم کی ظاہری اشکال کے بارے میں مغالطہ نہ ہوتا۔ رسمی تعلیم اور غیررسمی خواندگی جیسے موضوعات کیا ہیں‘ اِن کے بارے میں غوروخوض ضروری ہے اور جس طرح کوئی معالج غلط دوائی تجویز کر کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے بالکل اِسی طرح صاحبان علم اگر اپنے سطحی مطالعے و مشاہدے کی بنیاد پر عوام الناس کے ذہنوں میں کسی غیرمصدقہ نتیجہ¿ خیال کی شجرکاری کرتے ہیں تو یہ بھی یکساں بلکہ زیادہ سنگین جرم شمار ہونا چاہئے‘ کورونا وبا سے بے احتیاطی درحقیقت زندگی سے بے احتیاطی‘ ناشکری اور لاعلمی جیسے نتائج کا مجموعہ ہے‘ طبی ماہرین توجہ دلا رہے ہیں کہ ہمارے گردوپیش میں اِنسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والے ایسے لاکھوں جرثومے موجود ہیں‘ جو فی الوقت اِنسانوں کے لئے خطرہ نہیں لیکن اگر اُن کی زندگیوں میں مداخلت جاری رہی‘ جیسا کہ جنگلات کاٹے گئے۔ تو اندیشہ ہے کہ کورونا وائرس کی طرح دیگر کئی ایسی بیماریاں بھی اِنسانوں میں منتقل ہوں گی‘ جو اِس وقت صرف اور صرف جنگلی حیات کی حد تک محدود ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ اِنسان جہاں اِنسانوں سے اپنے سماجی تعلقات کا جائزہ لے وہیں‘ جانوروں سے اپنے تعلق اور بطور خاص گوشت خوری و بسیار خوری جیسی عادات پر غور کرے کہ اِس کے باعث بیماری کا باعث بننے والے جرثومے اپنی زندگی کے لئے نئے امکانات تلاش کر لیتے ہیں۔