حقائق نامہ

 سٹیٹ بینک نے وضاحتی بیان میں اس تاثر اور تجزیاتی نتیجہ خیال کو گمراہ کن اور غلط قرار دیا ہے کہ مالی سال 2019-20ءکے دوران پاکستان میں مہنگائی کی شرح دنیا میں بلند ترین رہی لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان میں بھلے ہی مہنگائی دنیا کے مقابلے زیادہ نہ ہو لیکن یہ پاکستانیوں کی قوت خرید سے یقینا کہیں گنا زیادہ اور ماضی میں کبھی بھی اس قدر مہنگائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ جب پاکستان میں مہنگائی کا موازنہ دیگر ممالک سے کیا جاتا ہے تو اسوقت اوسط قومی آمدنی کا ذکر نہیں کیا جاتا اور نہ ہی پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی کا حوالہ دیا جاتا ہے‘ دنیا کے کئی ممالک میں اشیائے خوردونوش سمیت بنیادی ضروریات کی قیمتوں کو مستقل رکھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں صورتحال اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہاں اجناس‘ پھل‘ سبزی‘ دالیں‘ گھی‘ خوردنی تیل‘ چینی اور آٹے کی قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں‘ رواں ہفتے آٹے کا بیس کلو تھیلا جسکی قیمت آٹھ سو روپے کے لگ بھگ تھی گیارہ سے بارہ سو روپے تک جا پہنچا ہے اور نانبائی ایسوسی ایشن نے روٹی کی قیمت دس سے بارہ روپے کرنے کا اعلان کردیا کیونکہ روٹی کا وزن مزید کم کرنا شاید ممکن نہیں رہا‘اس سے قبل آٹے کی قیمت کو روٹی کے وزن سے مشروط کر کے بڑھتی ہوئی قیمت کو روٹی کے کم ہوتے وزن سے درست کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ عام آدمی کے نقطہ نظر سے روٹی ایک ایسی بنیادی ضرورت ہے‘ کہ اسکی قیمت میں معمولی سا اضافہ بھی آبادی کی بڑی تعداد کےلئے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح (14فیصد سے زیادہ) رہی ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو سٹیٹ بینک کو مہنگائی کم کرنے کےلئے بلند شرح سود برقرار رکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مہنگائی کے حقائق نامے میں اس باب کا بہرحال اضافہ ہو چکا ہے کہ مذکورہ مالی سال دوہزاربیس بدترین تھا۔

 جس دوران کئی مواقعوں پر دنیا کی سب سے بلند شرح مہنگائی کا مشاہدہ کیا گیا اور مالیاتی پالیسی ساز ادارے کو مجبوراً شرح سود میں اضافہ کرنا پڑا‘ سٹیٹ بینک کی جانب سے اپریل کےلئے جاری کردہ مہنگائی کے بارے جائزہ رپورٹ میں کہا گیا کہ نہ صرف ترقی پذیر ممالک بلکہ ترقی یافتہ معیشتوں کے مقابلے میں بھی پاکستان نے بلند ترین افراطِ زر کا مشاہدہ کیا گیا لیکن اب سٹیٹ بینک اپنے ہی الفاظ کو دوسرے انداز سے سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے‘ہم عوام کے نقطہ نظر سے ادارہ جاتی اعدادوشمار سے زیادہ اہم برسرزمین حقائق ہیں‘ جن میں بنیادی ضروریات اور خصوصاً اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں آئے روز کا اضافہ ہے۔ رواں مالی سال کے دوران سٹیٹ بینک نے مہنگائی کے دباو¿ کو کم کرنے کےلئے شرح سود میں اضافہ کیا تھا لیکن بلند شرح سود کا الٹا اثر ہوا اور اس سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ دیکھنے میں آیا رپورٹ کے مطابق جنوری میں افراطِ زر کی شرح بارہ سال کی بلند ترین سطح پر یعنی چودہ اعشاریہ چھ فیصد رہی اور قیمتوں میں اضافے کے ردعمل میں سٹیٹ بینک نے شرح سود تیرہ اعشاریہ پچیس فیصد تک بڑھا دی تھی تاہم کورونا وائرس کے پھیلاو¿ کے سبب معاشی منصوبہ بندی الٹ گئی۔

 اندازے غلط ثابت ہوئے اور طلب میں کمی کے باعث سٹیٹ بینک صرف تین ماہ کے عرصے میں شرح سود کو پانچ اعشاریہ پچیس فیصد تک کم کرنے پر مجبور ہوگیا‘سٹیٹ بینک کے مہنگائی کے جائزے کے تفصیلی گراف کو دیکھا جائے تو ترقی پذیر معیشتوں مثلاً چین‘ تھائی لینڈ‘ بنگلہ دیش‘ بھارت اور سری لنکا کے مقابلے پاکستان کی افراطِ زر میں عالمی وبا کے بعد سے کمی واقع ہوئی ہے۔ رواں مالی سال کے جولائی سے لے کر مئی تک کے عرصے میں مہنگائی سٹیٹ بینک کے گیارہ فیصد کے تخمینے سے بھی کم رہی جس میں جون کے دوران مزید کمی کا امکان ہے‘ سٹیٹ بینک کی جانب سے قرضوں کی اصل رقم کی ادائیگی موخر کرنے‘ قرضوں کی ری شیڈولنگ اور صنعتی شعبوں میں نوکریوں کے خاتمے سے بچانے کےلئے آسان شرائط پر قرض فراہم کر کے اربوں روپے کا ریلیف دیا گیا لیکن تاحال پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے لیکر صنعت کاروں اور تاجروں کو دی جانے والی سہولیات کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور مہنگائی بدستور برقرار ہے۔