جاپان کے بوڑھے گھر بیٹھنے کو کیوں تیار نہیں؟

میکو ناگواکا نے پہلی مرتبہ تیراکی 80 برس کی عمر میں شروع کی تھی تاکہ ان کے گھٹنے میں لگی چوٹ کا درد دور ہو سکے۔ ان کو گھٹنے میں چوٹ روایتی جاپانی تھیٹر میں کام کے دوران لگی تھی۔

جب وہ سو برس کی ہوئیں تو انھوں نے اپنی کتاب ’میں سو برس کی ہو گئی ہوں اور دنیا کی بہترین تیراک ہوں‘ کے عنوان سے شائع کی۔

اس سے پہلے وہ اپنی عمر کے لوگوں میں 25 میٹر لمبے سوئمنگ پول میں 1500 میٹر تیر کر تیراکی کا ریکارڈ قائم کر چکی تھی۔ 105 سال کی عمر میں انھوں نے ماسٹر مقابلوں میں حصہ لیا اور اس وقت تیراکی کی دنیا کے 18 ریکارڈ ان کے پاس ہیں۔

ستمبر 2019 نے میڈیا کی چکا چوند میں ناگواکا نے فوکاکا میں ہونے والے جاپان ماسٹرز کے مقابلوں میں حصہ لینے سے قبل تیراکی سے ریٹائر ہونے کا اعلان کر دیا۔

انھوں نے 105 اور 109 سال کی عمر کے گروپ میں 25 میٹر بیک سٹورک مقابلوں میں عالمی ریکارڈ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ یہ مقابلہ مکمل نہ کرسکیں اور انھیں ریٹائر ہونا پڑا۔

 

وہ اپنے مداحوں کی تالیوں میں مسکراتے ہوئے پول سے باہر گئیں۔

ناگواکا 25 برس پر محیط سوئمنگ کے اپنے زبردست کیریئر سے ریٹائر ہونے کے بعد اپنے بیٹے کے ساتھ رہنے کے لیے یوکوہاما منتقل ہو گئی ہیں۔

 

میکو ناگواکا نے پہلی مرتبہ تیراکی 80 برس کی عمر میں شروع کی تھی تاکہ ان کے گھٹنے میں لگی چوٹ کا درد دور ہو سکے

ان کے صاحبزادے 79 سالہ ہرویوکی نے جنھوں نے تیراکی سیکھنے میں اپنی والدہ کی مدد کی تھی، جاپان کے سب سے بڑے اخبار اسائی شیمبون کو بتایا: ’انھیں اس عمر تک ساتھ ساتھ تیراکی کر کے انتہائی راحت اور خوشی حاصل رہی۔ دنیا بھر میں یقیناً ایسی کوئی مثال نہیں ہو گی۔‘

ایک اور ہر دل عزیز سو سال سے زیادہ زندہ رہنے والے ماسٹر کلاس ’سپرنٹ‘' یا دوڑنے والی ہیدکچی میازکی تھیں جو سنہ 2019 میں 108 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔

میازکی جنھیں اولمپک مقابلوں میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والے کھلاڑی یوسن بولٹ کے نام پر گولڈن بولٹ کا نام دیا گیا تھا انھوں نے 105 سال کی عمر میں100 میٹر دوڑ میں اپنی عمر کے لوگوں میں ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔

انھیں اس دوڑ میں اپنی کارکردگی پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو انھوں نے کہا کہ جتنے وقت میں انھوں نے یہ فاصلہ طے کیا اس پر وہ مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا یہ تبصرہ مقابلے کے اسی جذبے کی عکاسی کرتا ہے جو ناگوکا کو تیرنے پر آمادہ کرتا تھا۔

ہم بڑی آسانی سے طویل العمری کا تعلق اچھی خوراک اور کثرت سے جوڑ دیتے ہیں لیکن مقابلے اور جینے کی امنگ کے بارے میں کیا خیال ہے۔ صحت مند مقابلے کا جذبہ۔ چاہیے یہ اپنی عمر کے لوگوں یا اپنی عمر سے چھوٹے لوگوں سے ہو اور کامیابی اور جتنے کی امید بھی طویل العمری میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

یوچیرو میورا کے ساتھ یقیناً یہ ہی معاملہ تھا۔

86 برس کی عمر میں پیشہ ور سکیئر میورا ایک اور ایسے برزگ شہری ہیں جنھوں نے جاپان اور جاپان سے باہر بھی شہرت پائی۔

،86 برس کے پیشہ ور سکیئر یوچیرو میورا ایک ایسے برزگ شہری ہیں جنھوں نے جاپان اور جاپان سے باہر بھی شہرت پائی

40 برس کی عمر میں انھوں نے کوہ ہمالیہ سے اپنی کمر پر پیراشوٹ باندھ کر سکئی کرتے ہوئے اترنے کی کوشش کی۔ سکئی کے اس طریقے کو سپیڈ رائڈنگ کہتے ہیں۔ ان کے اس کارنامے کو ایک دستاویزی فلم: ’دی مین ہو سکئی ڈاون دی ایورسٹ‘ میں محفوظ کر لیا گیا۔ اس فلم کو بہترین دستاویزی فلموں میں سنہ 1975 میں اکیڈمی ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

70 برس کی عمر میں وہ کوہ ہمالیہ پر واپس گئے اور یوں انھوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی کو سب سے زیادہ عمر میں سر کرنے کا اعزاز اپنے نام کر لیا۔ انھوں نے پانچ سال بعد 75 برس کی عمر اور اس کے پانچ سال بعد 80 برس کی عمر میں تیسری بار یہ کارنامہ سر انجام دے کر یہ ریکارڈ بہتر کر دیا۔

میورا نے جنوبی امریکہ کی بلند ترین چوٹی ایکنوکاگوا سے سکئی کے ذریعے نیچے آنے کی کوشش کی۔ پلازہ کولیرا کے مقام پر جو سطح سمندر سے 6000 میٹر کی بلندی پر واقع ہے مورا کو ان کے معالج نے رکنے کے لیے کہا کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ میورا کو کہیں دل کا دورہ نہ پڑ جائے۔

جاپان واپس لوٹنے پر انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ڈاکٹر کا مشورہ اس لیے مان لیا تاکہ وہ دوبارہ یہ کام مکمل کرنے کے لیے آ سکیں۔ وہ اب 90 برس کی عمر میں کوہ ہمالیہ کو ایک مرتبہ پھر سر کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

جاپان میں ایسے بزرگوں کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ 83 برس کے میراتھن دوڑ میں حصہ لیے والےمیچی ہورا شیموجو اور سیچی سانو نے 80 برس کی عمر میں سرفنگ شروع کی۔

80 برس کے کئی اور بزرگ ایسے ہیں جو اس ترنگ میں ہیں اور جو ہمیں شرم دلاتے ہیں۔ آخر ان کی اس ترنگ کا کیا راز ہے۔ کیا یہ مقابلے کا جذبہ ہے یا ان سخت جان کھیلوں کی کشش۔

بوڑھوں کی تعداد میں اضافہ اب ایک ایسی حقیقت بن چکا ہے کہ جس کا ساری دنیا کو سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کی ورلڈ پوپولیشن پراسپیٹک کی نظر ثانی شدہ رپورٹ کے مطابق سنہ 2050 تک 80 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی تعداد تین گنا اور مجموعی طور 14 کروڑ 30 لاکھ سے بڑھ کر 42 کروڑ 60 لاکھ تک ہو جائے گی۔

جاپان میں کئی دہائیوں سے آبادی کی شکل تبدیل ہو رہی ہے اور جاپان ان ملکوں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جن کو ’سپر ایج‘ یعنی عمر رسیدہ معاشرہ کہا جاتا ہے۔ جن میں سینئیر سٹیزن کی عمر 65 سال یا اس سے زیادہ ہو اور جن کا تناسب 28 فیصد تک ہو گیا ہے۔

 

میازکی جنھیں اولمپک مقابلوں میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والے کھلاڑی یوسن بولٹ کے نام پر گولڈن بولٹ کا نام دیا گیا تھا انھوں نے 105 سال کی عمر میں100 میٹر دوڑ میں اپنی عمر کے لوگوں میں ورلڈ ریکارڈ قائم کیا

بینک آف جاپان کے سابق چیئرمین مساکی شراکاوا نے سنہ 2018 میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ملک کی مجموعی پیداوار میں اضافہ معاشی اقدامات سے نہیں بلکہ نئے معاشرتی ڈھانچے میں کم شرح تولید اور عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد میں اضافے کے عناصر کو مد نظر رکھتے ہوئے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

یورپ کے بیشتر ملکوں کو بھی آبادی میں عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد میں اضافے کا مسئلہ درپیش ہے۔ جنوبی کوریا، چین اور سنگاپور بھی ان ہی ملکوں کی صف میں کھڑے ہیں اور ان کی نظریں جاپان پر لگی ہوئی ہیں تاکہ وہ ان پالیسیوں کو تبدیل کر سکیں جو نوجوان آبادی کو سامنے رکھ کر بنائی گئیں تھیں۔

نئی معاشرتی، سیاسی اور قانونی تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ بڑی عمر کے افراد کی مجموعی آبادی میں شرح بڑھنے سے معاشی پیداوار میں کمی اور صحت اور پینشین کے بوجھ کا تدارک کیا جا سکے۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ جس چیز کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ان ملکوں کو یہ سوچنا پڑے گا کہ وہ کسی طرح اپنے عمر رسیدہ لوگوں کی ذہنی صحت کا خیال رکھیں۔

جاپان کو اس ضمن میں ایک خصوصی حثییت حاصل ہے کیونکہ اس کے شہریوں میں موت کے خوف سے قطع نظر یہ احساس شدت سے پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے معاشرے اور اپنے خاندان پر بوجھ نہ بن جائیں۔

یہ خیال جسے ’مجواکا‘ یا عضو معطل ہونے کا احساس بہت کم عمری سے لوگوں کے ذہنوں میں جڑ پکڑ لیتا ہے اور پورا معاشرہ ہی اس احساس پر کھڑا ہے۔ دوستوں کی طرف سے مدد کو اکثر مسترد کر دیا جاتا ہے کہ کہیں اسے قبول کرنے سے ’مجواکا‘ نہ سمجھ لیا جائے۔

عمر رسیدہ لوگوں کے معاملے میں بڑھاپے کو ایک ایسی کیفیت تصور کیا جاتا ہے جس کا کوئی حل نہیں ہے۔ مجواکا نہ ہونے کا احساس مالی اور جسمانی طور پر کسی کا زیر نگیں نہ ہونے کی مسلسل جدوجہد کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

یہ خوف یا خودداری کا احساس آپ کو کام کرتے رہنے اور معاشرے میں ایک کارآمد حصہ بنے رہنے پر مجبور کیے رکھتا ہے۔

کابینہ کی ’ڈھلتی ہوئی عمر کے معاشرے‘ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 60 سے 69 سال کی عمر کے لوگوں کا 70 فیصد حصہ اور 70 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کا 50 فیصد حصہ یا تو کام کر رہا ہے یا پھر رضاکارانہ طور پر کسی خیراتی یا دوسرے مشاغل میں مصروف ہیں۔

اس تبدیلی کے پیش نظر 70 فیصد کمپنیوں نے گزشتہ ایک دہائی میں ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کر دیا جس سے عمر رسیدہ لوگوں میں روزگار کا تناسب بہتر ہو گیا ہے۔

ایک ایسی زندگی گزارنا جس میں گھر کے نوجوان افراد پر انحصار نہ کرنا پڑے، مشاغل اختیار کرنے کی ایک بڑی وجہ بنتا ہے۔ کھیلوں میں شرکت جیسا کہ تیراکی جو عمر رسیدہ لوگوں میں بہت مقبول ہے، کے علاوہ بوڑھے اکثر اپنے آپ کو مختلف مشاغل میں مصروف کر لتیے ہیں جن میں روائتی خطاطی، پھولوں کی سجاوٹ، سلائی، کڑہائی، موسیقی کا کوئی آلا بجانا یا ڈانس بھی شامل ہے۔

اسی رپورٹ میں کہا گیا کہ جاپانیوں میں یہ احساس دوسرے ملکوں کے بزرگوں کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے۔

’کیو سپورٹس میڈیسن ریسرچ سینٹر‘ سے وابستہ پروفیسر یوکو اوگاما کا کہنا ہے کہ اتھلیٹک صلاحیت کا تعلق احساس سے ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ 80 سال سے زیادہ کی عمر کے ہر شخص کو پہاڑ پر چڑھنا چاہیے۔

اوگاما کا کہنا تھا کہ ہلکی پھلکی روزنہ واک یا مقامی کمینوٹی سینٹر میں ورزش بہت اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ آپ کے حواس خمسہ کے ہی لیے نہیں بلکہ معاشرتی نقطع نگاہ سے بھی۔

’دس سال پہلے کے مقابلے میں جاپان کے بوڑھوں کی زندگیاں اب زیادہ صحت مند اور خوشگوار گزر رہی ہیں۔ اس کی وجہ بہتر ادویات کی دستیابی اور اپنے جسم کے بارے میں بہتر معلومات کو قرار دیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے پٹھے بڑی عمر میں بھی مضبوط ہو سکتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ عمر کے ساتھ ساتھ آپ کے جسم کے پٹھے کمزور پڑتے جاتے ہیں اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بڑی عمر میں بھی ہم کثرت کر سکتے ہیں اور اپنے پٹھوں کو مضبوط کر سکتے ہیں اور یہ بہت ضروری بھی ہے۔‘

اوگاما کہتی ہیں کہ یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ معاشرے میں بہت سے عمر رسیدہ لوگوں کے ہونے سے وہ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور پروقار انداز سے بوڑھے ہونے میں کوئی اہم چیز نہیں ہے۔ اکثر بہت سے سینیئر سٹیزن خود ہی ایسے پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ وہ خود ہی ایک دوسرے کی مدد سے ایسی سرگرمیاں تلاش کرتے ہیں جو انھیں مصروف ہونے کے ساتھ ساتھ صحت مند رہنے میں مدد دیں اور معاشرے سے بھی جوڑے رکھے۔ یہ سرگرمیاں انھیں چاک و چوبند رکھتی ہیں۔

 

نوے برس کی کمیکو نیشاموتو کو انسٹا گرام پر دو لاکھ سے زیادہ لوگوں کی پذیرائی حاصل ہے

اگر بڑھتی ہوئی عمروں کے معاشروں میں کمیونٹی کی تشکیل اہم ہے تو اداروں کے لیے مختلف نسلوں اور مختلف ثقافتوں کے لوگوں کے درمیان روابط پر توجہ دینا بھی ضروری ہے۔ سینیئر سٹیزن مقامی سکولوں میں مختلف تقریبات کے انعقاد میں رضا کارنہ طور پر شریک ہو جاتے ہیں۔

اب ہم نوے برس کے کمیکو نیشاموتو تک پہنچ جاتے ہیں جن کو انسٹا گرام پر دو لاکھ سے زیادہ لوگوں کی پذیرائی حاصل ہے۔

ناقابل یقین ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کے مالک لوگوں کا ذکر کیا جا چکا۔

نیشاموتو دل اور جذبے کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ نیشاموتو نے اپنے بیٹے کے فوٹوگرافی کے سکول میں جانا شروع کیا اور پھر انھیں شٹر کی آواز دیوانگی کی حد تک اچھی لگنے لگی۔ ان کی حیران کن حس مذاح ان کے عجیب و غریب فریمز میں سامنے آنے لگی۔ وہ معاشرے کی روایات کا سہارا لیتے ہوئے اپنی بوڑھے پن کا مذاق اڑاتی ہیں۔

بہت سے دوسرے بزرگ شہریوں کی طرح وہ اکیلی رہتی ہیں اور ان کے بیٹے نے انھیں ایک روبوٹ لا دیا یہ جس کا نام پیپر ہے۔ وہ اکثر مذاق کے طور پر کہتی ہیں کہ وہ اسے تیز آواز میں بولنے پر برا بھلا کہتی ہیں اور اس پر ربن باندھ کر اس کی تصویریں بناتی ہیں۔

جاپان کے عمر رسیدہ لوگوں میں کچھ سپر سٹارز ہیں۔ جو بڑھاپے کو بری نظر سے دیکھنے کے ذہن کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب جاپان کی پالیسی ساز کمپنیاں اور کئی برادریاں زیادہ سے زیادہ عمر رسیدہ لوگوں کی زندگیوں بہتر بنانے پر زور دے رہے ہیں۔ ان کی کامیابیاں، مستقل مزاجی اور ظاہری حالت ہمارے لیے حوصلہ افزا بات ہے۔

شاید باوقار انداز میں بڑھاپا گزانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم کیجواکا اختیار کریں۔ جاپانیوں کی خوراک کی عام طور پر لوگوں کو صحت مند رکھنے کے حوالے سے تعریف کی جاتی ہے لیکن جاپانی شہریوں کی طویل العمری کا کوئی اور راز بھی ہے۔

نیشاموتو سے جب ان کی خوراک کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا وہ شراب اور سگریٹ نوشی کرتی ہیں۔

تو صرف صحت مند خوراک ہی طویل العمری کی بڑی وجہ نہیں ہے۔ کسی حد تک اس کا جواب اس خوشی میں ہے جو انھیں انسٹا گرام پر لوگوں سے شیئر کرنے میں ملتی ہے۔(بشکریہ بی بی سی)