جمہوریت کا حسن


الیکشن کمیشن نے انتخابی فہرستوں سے ان 7لاکھ 50ہزار ووٹروں کے نام خذف کرنے کا اعلان کیا ہے جو وفات پاچکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے واضح کیا ہے کہ 2013ءکے عام انتخابات سے اب تک انتخابی فہرستوں پر مرحلہ وار نظر ثانی کے دوران بلدیاتی اداروں اور نادرا کی جانب سے فراہم کی جانے والی ڈیٹا کی بنیاد پرفوت ہونے والے 40 لاکھ سے زائدافراد کے نام انتخابی فہرستوں سے حذف کیے گئے ہیں۔ 2018کے انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن نے 8 لاکھ سے زائد اور2020 میں7 لاکھ 50ہزار سے زائد فوت شدہ ووٹروں کے نام انتخابی فہرستوں سے نکالے گئے ہیں الیکشن کمیشن نے لوکل گورنمنٹ کے متعلقہ حکام کوہدایت کی ہے کہ فوت شدہ افراد کے کوائف الیکشن ایکٹ کے سیکشن 43 کے مطابق سہ ماہی بنیاد وں پرضلعی الیکشن کمشنر ز کو مہیا کئے جائیں تاکہ قانون کے مطابق تمام فوت شدہ افراد کے نام انتخابی فہرستوں سے حذف کیے جاسکیں۔ماضی میں بھی میڈیا اور سیاست جماعتوں کی طرف سے الیکشن کمیشن پر انتخابی فہرستوں کی تجدید نہ کرنے اور حتمی فہرست میں لاکھوں کی تعداد میں فوت ہونے والے ووٹروں کے نام شامل کرنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ حالانکہ اس میں الیکشن کمیشن کا کوئی دوش نہیں ہوتا۔ ہمارے سیاست دان خود نہیں چاہتے کہ ان کے ووٹروں کی تعداد کم ہو۔ ان کا خیال ہے کہ مرنے کے بعد بھی ووٹر کی تائید و حمایت انہیں حاصل رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے شناختی کارڈ اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں اور ووٹنگ کے روز ان کے حق میں دعائے معفرت کے ساتھ ان کا ووٹ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کراچی اور سندھ کے دیگر بڑے شہروں میں میں کچھ عرصہ قبل تک لوگوں کو شناختی کارڈ ووٹنگ کی تاریخ سے دو دن پہلے سیاسی رضاکار گھر گھر جاکر جمع کرتے تھے۔ کچھ لوگوں کو پولنگ بوتھ کے باہر شناختی کارڈ واپس مل جاتے تھے اور کچھ لوگوں کے لئے شناختی کارڈز کی ہوم ڈیلیوری سروس ہوا کرتی تھی۔ اگر بھول چوک سے انتخابی فہرستوں میں وفات پانے والوں کے نام خذف کرنے سے رہ بھی جائیں تو یہ کونسی انوکھی بات ہے ہمارے ملک کے سرکاری اداروں میں فائلیں جس رفتار سے سفر کرتی ہیں اس کے حساب سے کسی کام کے انجام پانے میں دس پندرہ سال کی تاخیر کسی شمار میں ہی نہیں آتی۔جلدبازی کے عادی افراد فائلوں کو نوٹوں کے پہئے لگاکر طاقوں اور درازوں سے نکال کر میزوں پر سفر کراتے ہیں اور چند دنوں میں مطلوبہ نتائج حاصل کرلیتے ہیںہماری سرکار اور اس کے ماتحت اداروں کو فائلوں سے والہانہ قسم کی محبت ہے اس لئے وہ سسٹم کو ڈیجیٹائز کرنے کو کسی صورت تیار نہیں ہوتے۔ کیونکہ ڈیجیٹائزیشن میں بہت سی قباحتیں ہیں، کسی کی سفارشی پرچی کو فائل میں بطور سند محفوظ رکھا جاسکتا ہے کمپیوٹر میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ضرورت پڑنے پر کسی فائل کو تلف بھی کی جاسکتا ہے کمپیوٹر میں ایک فائل دس مقامات پر محفوظ ہوتی ہے اور ڈیلیٹ ہونے کی صورت میں ریکور کرنے کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔ڈیجیٹائزیشن میں پائی پائی کا حساب موجود ہوتا ہے جبکہ فائل سسٹم میں مجموعی رقم سے کمیشن، رشوت، کک بیک اور چائے پانی کا خرچہ نکالنا آسان ہے۔کسی مذموم مقصد کے لئے فائلوں کو ضائع کرنا مقصود ہو تو اس کے لئے ماچس کی ایک تیلی کافی ہوتی ہے اور الزام شارٹ سرکٹ پر لگاکر بندہ آسانی سے چھوٹ سکتا ہے۔ جبکہ کمپیوٹر میں یہ سہولت فراہم کرنے کا سافٹ وئیر کے بانی کو شاید خیال بھی نہیں آیا ہوگا۔بات ووٹر لسٹوں سے شروع ہوئی تھی۔ اس حوالے سے بہت سے لطیفے مشہور ہیں دیہات میں تو لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں اس لئے انہیں وفات پانے والوں کی تاریخ وفات بھی یاد ہوتی ہے شہری علاقوں میں کوئی شخص اپنے پڑوسی کے بارے میں بھی لاعلم ہوتا ہے پولنگ بوتھ پر جب کسی مرحوم یا مرحومہ کا نام پکارا جاتا ہے تو اس علاقے کی بااثر پارٹی کے رضاکار فوری طور پر اس کا شناختی کارڈ لے کر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں اور مرنے والے کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ بعض پولنگ اسٹیشنوں پر پول شدہ ووٹوں کی تعداد علاقے کے رائے دہندگان کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ نکلتی ہے۔ اور یار لوگ اسے جمہوریت کا حسن قرار دیتے ہیں۔قوم جمہوریت کے اس حسن بلاخیز کی تباہ کاریوں کا خمیازہ آج بھگت رہی ہے۔