بلیک میلنگ کےلئے صنف کی شرط

خبر آئی ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر کرائم سرکل نے ایک سادہ لوح لڑکے کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں ایک لڑکی کو گرفتار کرلیا ہے۔ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزمہ کے موبائل فون سے لڑکوں کو بلیک میل کرنے کے ٹھوس شواہد ملے ہیں۔مبینہ بلیک میلنگ سے متاثرہ شخص نے ایف آئی اے میں شکایت درج کروائی تھی کہ ایک لڑکی اسے شادی نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہی ہے جس کے بعد سائبر کرائم سرکل نے کارروائی کرتے ہوئے موبائل نمبروں کی مدد سے لڑکی کو گرفتار کرلیا۔ملزمہ کے موبائل فون سے بلیک میلنگ اورقابل اعتراض مواد شیئر کرنے کے شواہدبھی ملے ہیں ۔ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے مطابق خاتون سے شکایت کنندہ کی 2013 سے دوستی تھی۔ان کے درمیان بیش قیمت تحائف کے تبادلے بھی ہوتے رہے ہیں دوستی کی آڑ میں خاتون نے قابل اعتراض تصاویر اور ویڈیوز بھی بنائیں۔ اپنی تیاری مکمل کرنے کے بعد اس نے لڑکے کو شادی کی آفر کی۔ لڑکے کی جانب سے انکار پر ملزمہ نے تصاویراور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کردیں۔ایف آئی اے کے مطابق ملزمہ پرکئی لڑکوں کو بلیک میل کرنے کے الزامات ہیں ۔ اور اس کے موبائل سے بلیک میلنگ والا مواد بھی برآمد ہوا ہے۔ ملزمہ سے کئی موبائل فون بھی ملے وہ ہر شکار کے لئے الگ فون استعمال کرتی تھی۔ہمارے وزیراعظم نے موٹروے میں ایک خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعے پر اپنے ردعمل میں جنسی طور پر زیادتی اور ہراساں کرنے والوںکو آپریشن کے زریعے نامرد بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔ قومی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے اکلوتے منتخب رکن مولانا عبدالاکبر نے وزیراعظم کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنسی ہراسانی میں مرد ہی نہیں ، عورتیں بھی ملوث ہوتی ہیں‘ہراسانی کامرتکب مرد ہو یا عورت‘ سب کو یکساں سزا ملنی چاہئے۔مولانا کی تقریر پر ایوان کے اندر اور باہر کافی تبصرے ہوئے اکثریت کی رائے تھی کہ جنسی ہراسانی میں عورت کے ملوث ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اکثر دوستوں کا کہنا ہے کہ عورت صنف نازک ہے اور وہ اغوا، تشدد، جنسی زیادتی ، مار دھاڑاور دیگر سنگین جرائم میں ملوث ہوہی نہیں سکتی۔زیادہ سے زیادہ اندرون خانہ سازشیں کرسکتی ہے چغلیاں کرسکتی ہے یا اپنی ہم جنسوں کو زبانی کلامی ہراساں کرسکتی ہے۔روایتی ساس بہو ، نند بھاوج اور سوتیلی ماں جیسے کردار نبھاسکتی ہے۔ اچھے اور برے کا تصور کسی ایک صنف تک محدود نہیں اور پھر اچھے لوگوں کی پہچان کےلئے معاشرے میں برے لوگوں کی موجودگی بھی ضروری ہوتی ہے ان کے تقابلی جائزے کے بعد ہی اچھوں کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔سارے لوگ اچھے ہوجائیں تو سماجی زندگی یکسانیت کا شکار ہوجائے گی اور انسان فطری طور پر یکسانیت سے سخت الرجک ہے او روہ تبدیلی و تغیر کا شکار ہونا پسند کرتا ہے۔ ہرچیز کا ایک ظاہری اور ایک پوشیدہ رخ ہوتا ہے اسلئے ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار ہونے والی لڑکی پر فوری طور پر بلیک میلر ہونے کا ٹھپہ نہیں لگایاجاسکتا۔ہوسکتا ہے کہ اس کےلئے حالات ہی ایسے پیدا کئے گئے ہوں کہ انتہائی اقدام کے سوا اس کے سامنے کوئی دوسرا راستہ نہ ہو۔ اس نے جو قدم اٹھایا ہے توہو سکتا ہے کہ اپنی جان کی آمان کے لئے وہ یہ حرکت کرنے پر مجبور ہوئی ہو گی‘ اگر ہم انسانی فطرت کی بات کریں تو اس سے مراد بلا امتیاز صنف مرد اور عورت دونوں کی فطرت ہے، جس میں اچھائی اور برائی دونوں کی طرف میلان ہے ، اسلئے تو قوانین ایسے ہوں کہ وہ بلا امتیاز صنف تمام شہریوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔اس ضمن میں جو قانون سازی ضروری ہو کی جائے کیونکہ اس طرح ہی معاشرتی روئیوں میں سدھار آسکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں خواتین اور مرد ہی معاشرے کی ترتیب کا اہم جزو ہیں ،تاہم معاشرتی اقدار پر مضبوطی سے کار بند رہ کر ہی ان کے کردار سامنے آتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو مسئلہ اس وقت سر اٹھار رہا ہے اور جس کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے وہ معاشرتی اقدار پر کاربند رہنے سے گریز اور رویوں میںواقع ہونے والی تبدیلیاں ہیںجس کیلئے ہر کسی کو ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں وقوع پذیر تبدیلیوں کو نظر انداز کرنے کی بجائے ان پر غور کیا جائے اور ان عوامل کو مد نظر رکھا جائے جو ان کاباعث بنے ہی تاکہ ان معاشرتی برائیوں کاخاتمہ یا ان پر بروقت قابو پانے میں مدد ملے جو وقت گزرنے کے ساتھ گھمبیر صورت اختیار کرتے جاتے ہیں۔