کرپشن ثابت کرنے کا آسان فارمولہ

سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ایک دھوبی کے اکاﺅنٹ سے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن کا انکشاف ہوا ہے گھوٹکی کے نواحی گاﺅں ولومہر کے رہائشی رمیش کمار تک ایف آئی اے نے رسائی حاصل کرلی ہے اور اربوں روپے کی ٹرانزیکشن کی وضاحت کےلئے اسے نوٹس بھی جاری کردیا ہے۔دوسری جانب ارب پتی رمیش کمار کا کہنا ہے کہ 2009ءمیں وہ مقامی شوگر مل میں سینیٹری ورکر کا کام کرتا تھا‘دو سال پہلے ملازمت چھوڑدی تھی اور کپڑے دھونے کا کام شروع کیااسکے اکاﺅنٹ سے کس نے بارہ ارب 78 کروڑ 71 لاکھ 45 ہزار روپے کی ٹرانزیکشن کی اس بارے میں ان کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں‘اگر وہ ارب پتی ہوتا تو کیا دھوبی کا کام کرتا؟ایف آئی اے رمیشن کمار کے جواب سے مطمئن نہیں ہوئی اور واقعے کی مزید تفتیش جاری ہے۔حیرت کی بات ہے کہ اس عرصے میں اکاونٹ ہولڈر کو ایک بار بھی اپنا بیلنس چیک کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا۔بینک والوں نے بھی اس سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اتنی بڑی رقم اس کے اکاونٹ میں کہاں سے آئی اور پھر یہ رقم کہاں چلی گئی،ایک عام شہری جب بینک اکاونٹ کھولنے جاتا ہے تو اس سے تین پشتوں تک کی باز پرس ہوتی ہے۔ممکن ہے کہ دھوبی نے کسی بینک میں خود جاکر اپنا اکاونٹ بھی نہ کھولا ہو۔ معلوم نہیں کس نے ان کے نام پر اکاونٹ کھول بھی دیا ‘اربوں روپے اس میں جمع بھی کروادیئے اور وہاں سے نامعلوم مقام پر منتقل بھی کردئے اب بےچارے دھوبی کو پیشیاں بھگتنے پڑیں گے اس سے پہلے فالودہ فروشوں‘پاپڑ بیچنے والوں اور سبزیوں کی ریڑھی لگانے والوں کے نام پر اکاونٹ کھولنے اور ان میں کروڑوں اربوں روپے کی ٹرانزیکشن کے انکشافات بھی ہوئے ہیں‘ان غریب پروروں کو کبھی ہم جیسے ناداروں کے اکاونٹ میں پانچ دس لاکھ روپے ڈالنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ہم ہر مہینے بلاناغہ اپنے اکاونٹ کا بیلنس اسی امید پر چیک کرتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی بھولے سے دوچار کروڑ ہمارے کھاتے میں بھی ڈال دے لیکن ہر بار اکاونٹ میں دو تین سو روپے کا بیلنس ہمارا منہ چڑاتا ہے ادھر قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ مختلف عدالتوں میں 943 ارب روپے کی کرپشن کے 1230 مقدمات زیر سماعت ہیں ۔خود نیب کی ٹیمیں کھربوں روپے کی کرپشن کے مقدمات کی تفتیش کر رہی ہیں لیکن گذشتہ دو سالوں کے اندر کسی بڑے سکینڈل کا فیصلہ نہیں آسکا اور قومی دولت لوٹنے والے بڑے مگرمچھوں سے ایک پائی بھی وصول نہیں کی جا سکی جسکی وجہ سے نیب کو سیاسی لیڈروں اور عدالتوں کی طرف سے بھی لعن طعن کا نشانہ بنایاجارہا ہے حکومت اور نیب والوں کا کہنا ہے کہ چور کوئی ثبوت چھوڑ کر نہیں جاتے ‘اسلئے عدالتوں میں چوری ثابت کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ہی دیا جاتا ہے‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دھوبی کے اکاونٹ میںبارہ ارب 78 کروڑ سے زائد کی جو رقم آئی ہے اس کا بینک کے پاس ریکارڈ ضرور ہوگا۔ پھر یہ رقم کس اکاونٹ میں کس طریقے سے منتقل کی گئی اس کے بارے میں بھی بینک والوں کو بخوبی معلوم ہوگا‘ اگر بینک والے ریکارڈ ایف آئی اے اور نیب کو نہیں دیتے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بینک والے بھی اس میں ملوث ہوں گے ہمارے دیوانی، فوجداری اور مالیاتی قوانین دانستہ طور پر ایسے بنائے گئے ہیں کہ بڑے مگرمچھوں کی چوری نہ پکڑی جاسکے اگر احتساب بیورو ثبوت کی تلاش میں مصروف رہی تو آئندہ سو سالوں تک بھی اسے ٹھوس ثبوت نہیں ملیں گے‘ نیب چوریوں کے ثبوت کے پیچھے اپنا ‘ قوم اور عدالتوں کا قیمتی وقت ضائع کرنے کے بجائے ایک سادہ اور سیدھا راستہ اختیار کرے تو کرپشن کیسز کے فیصلے سالوں اور مہینوں میں نہیں‘بلکہ ہفتوں اور دنوں میں ہوسکتے ہیں۔ایک شخص کی ظاہری آمدنی تین لاکھ روپے ماہانہ ہے اسکے اخراجات دو لاکھ روپے ہیں مہینے میں ایک لاکھ اور سال میں بارہ لاکھ کی بچت ہوتی ہے اگر اسکے اثاثوں میں ایک سال میں پچاس کروڑ کا اضافہ ہوا ہے تو اسے عدالت میں ثابت کرنے کا پابند بنایاجائے کہ اس نے یہ اضافی دولت جائز ذرائع اورقانونی طریقے سے حاصل کی ہے اگر وہ ثابت نہ کرسکا۔ تو اضافی دولت بحق سرکار ضبط اور ملزم کو کرپشن ثابت ہونے پر جیل میں ڈالا جائے نہ جانے یہ آسان ، کم خرچ اور بالانشین فارمولہ نیب اور حکومت کے پلے کیوں نہیں پڑ رہا؟