کھیل اور سیاست میںمماثلت

ہمارے حکمرانوں کو یہ شکایت ہے کہ اپوزیشن انہیں عوامی فلاح و بہبود کے کام کرنے نہیں دے رہی۔ وہ تو صدق دل سے چاہتے ہیں کہ لوگوں کو روزگار ملے، مہنگائی کو کم کیا جائے، ملک میں بجلی گیس، تیل ، چینی ، آٹے، دال، سبزیوں اور دیگر روزمرہ ضرورت کی اشیاءکی قیمتیں کم ہوں، لوگوں کو تحفظ کا احساس ہو، کرپشن ، رشوت ستانی، بلیک مارکیٹنگ اور صنفی امتیاز کاخاتمہ ہو اورجب راوی پاکستان کے بارے میں لکھے تو چین ہی چین لکھ دے۔ مگر اپوزیشن ہر موڑ پر رکاوٹ بن جاتی ہے۔آئین میں ترمیم اور اداروں میں اصلاحات لانے کیلئے حکومت تو بے چین ہے لیکن اسمبلی میں واضح اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے سارے ارمان آنسوﺅں میں بہہ جاتے ہیں، پٹرول کی قیمت حکومت کم کرنے کا اعلان کرے تو پٹرول والے ہڑتال کرتے ہیں۔ تیل کی قیمت میں اضافہ ہو تو ٹرانسپورٹر ہڑتال کرتے ہیں، چینی اور آٹے کی قیمت حکومت کم کرتی ہے تو مارکیٹ سے گندم اور آٹا غائب ہو جاتا ہے۔کسی کے خلاف منی لانڈرنگ ، آمدن سے زائد اثاثے بنانے ، سمگلنگ، ملاوٹ ، گرانفروشی اور ذخیرہ اندوزی کا مقدمہ درج کیا جائے تو اسے سیاسی انتقام سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس گھمبیر صورتحال کے باوجود وہ امور مملکت چلا رہے ہیں،یہ بھی کیا کم غنیمت ہے ۔سیاست کی مثال بھی فٹ بال، ہاکی، کرکٹ، والی بال اور کشتی کے کھیل سی ہے۔ جس میں دو فریقوں کا مقابلہ ہوتاہے ، ایک دوسرے کے گول پر حملے کئے جاتے ہیں، مخالف ٹیم کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے، کھیل میں جو فریق زیادہ چستی ، مہارت ، چابکدستی اور دباﺅ سہنے کی اہلیت رکھتا ہے ، جیت اس کا مقدر ہوتی ہے ، تماشائی بھی دو ٹیموں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ایک ٹیم بہت مضبوط اور مخالف بالکل کمزور ہو تو کھیل کا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے۔ اس صورتحال میں مضبوط ٹیم کے بہترین کھلاڑیوں کی صلاحیت کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ایسے کھیل کو یکطرفہ قرار دیا جاتا ہے اور اگر مخالف ٹیم میدان میں ہی نہ اترے تو مخالف ٹیم کو واک اوور مل جاتا ہے اور کھیل کھیلا ہی نہیں جاتا۔ ہماری حکومت کو بھی اپوزیشن کی مخالفت کا جواز پیش کرکے اپنی کارکردگی پر پردہ نہیں ڈالنا چاہئے، اچھا کھلاڑی وہ ہوتاہے جو مخالف ٹیم کے پانچ چھ کھلاڑیوں کو ڈاج دے کر گیند گول میں پھینک دیتا ہے۔ہمارے وزیر اعظم اپنے دور کے بہترین کھلاڑی رہے ہیں۔ان سے بہتر کھیل کے داﺅ پیچ کون جانتا ہے۔ کھیل کے اس اصول سے وہ بخوبی واقف ہیں کہ کبھی دفاعی پوزیشن اختیار کرنی پڑتی ہے اور کبھی جارحانہ انداز اپنانا پڑتا ہے۔ اگر عمران خان کھیل کے اصول کی بنیاد پر سیاست کریں اور اپنی ٹیم کو بھی وہی گر بتائیں تو ان کی جیت کے چانسز بڑھ سکتے ہیں۔موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت کا نصف حصہ گزار چکی ہے ، اداروں میں اصلاحات اور معیشت کی بحالی کے اعداد وشمار سے لوگوں کو بہلانے کی کوشش کی جارہی ہے ، تاہم برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ عوام کو معیشت کے استحکام اور اداروں میں اصلاحات کا اب تک کوئی فائدہ نہیںپہنچا۔ پچاس روپے کا ڈالر اب 165روپے کا ہوگیا ہے، اسی تناسب سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ روزگار کے دروازے بند ہیں ، غریب کیلئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح 35فیصد سے بڑھ کر50فیصد ہوگئی ہے ۔ سابقہ حکومتوں کومورد الزام ٹھہرا کر حکومت ڈھائی سال کا عرصہ گزار چکی ہے اور اب یہ جواز بے معنی ہو چکا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف عوام کیلئے امید کی آخری کرن ہے ، کیونکہ سابقہ حکومتوں کی کارکردگی سے عوام پہلے ہی مایوس تھے اب اگر پی ٹی آئی بھی عوام کی توقعات پر پوری نہ اتر سکی تو پاکستان کے عوام کا سیاست اور جمہوریت پر سے اعتماد اٹھ جائیگا اور یہ صورتحال خود پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کےلئے خطرناک ہے ۔