درپیش سیاسی ومعاشی چیلنج

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے عوام سیاست میں کافی آگے نکل چکے ہیں اورلیڈرحضرات پیچھے رہ گئے ہیں کم وبیش40سال تک سیاسی رہنماﺅں نے عوام کا خوب استعمال کیا سیاستدان کرسی بچاتے رہے اور غریب کو سنہرے خواب دکھا کر جتناہوسکتاتھا استحصال کیا ۔کورونا وائرس کے ہنگامے میں اشیاءخوردنوش کے نرخ بڑھادئیے گئے ہوشربامہنگائی کے بارے میں ہم نے سناتھا اور اب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیاکہ ہوشربا کیا ہوتا ہے غریب لوگوں کی واحدخوراک سبزیاں اور دالیں تھی۔ اب ان کے نرخ اتنے زیادہ بڑھے کہ غریب آدمی سبزی اوردالوں سے بھی محروم ہوگیا اوریہ کھیل تقریباًچھ مہینے سے جاری ہے عوام احتجاج کررہے ہیں لیکن ان کی نہیں سنی جاتی اب حکمران یہ کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی کم کرینگے مگر حیرت ہے کہ مہنگائی کوختم کیوں نہیں کرتے اس میں رکاوٹ کیا ہے ‘اشیائے صرف کی قیمتیں مقرر کرنا تو حکومت کا کام ہے‘ قیمتوں میں کمی کرے مہنگائی خود بخود ختم ہوئی اب آتے ہیں ملک کی سیاسی صورتحال اورحکومت اوراپوزیشن کی سیاسی محاذ آرائی کی طرف‘مولانافضل الرحمن نے اپوزیشن کو یکجاکرنے میں بڑافعال کرداراداکیا آل پارٹیز کانفرنس کے بعد اپوزیشن اور حکومت دونوں میں کافی اُداسی چھاگئی تھی اوردونوں کےلئے صورتحال دیکھواورانتظارکرووالی بات تھی ،سٹریٹ پاور کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں کہ اس وقت گوکہ مولانافضل الرحمن کی چاروں صوبوں میں سیاسی اہمیت زیادہ ہے لہٰذاانہوں نے بھی چاروں صوبوں میں اپنی پارٹی کو اوربھی سرگرم کیااورملکی سیاست میں خوب گرمی پیدا کرنے کی حکمت عملی بنائی گئی ‘ مولاناصاحب نے ایسالائحہ عمل بنایاکہ پی ڈی ایم وجودمیں آئی اور مولاناصاحب اس کے صدرمقررہوئے اگرصورتحال کو وسیع تناظر میں دیکھاجائے تو وزیراعظم عمران خان کامقابلہ ٹف ہوگا تاہم اب جواپوزیشن سامنے آئی ہے وہ پہلے کی نسبت زیادہ مضبوط ہے جسکے مقابلے میں حکومت نے بھی اپنی صفوں کودرست کیاتاکہ ہرقسم کے خطرے سے بطریق احسن نمٹاجاسکے۔اس تمام صورتحال میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ حالات ہنگامہ خیز ہوگئے ہیں، ایسے میں جوش کی بجائے ہوش کی ضرورت ہے اور حکومت و حزب اختلاف دونوں کو حالات کی نزاکت کا بھی خیال رکھنا ہوگا، اندرون ملک حالات کو خراب کرنے کیلئے بھارت کی سازشیں کوئی نئی بات نہیں اور پھر سی پیک جیسے بڑے منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے اسلئے ،اہل سیاست کو سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی مفاد میں حالات کو مزید خراب ہونے سے روکنا ہو گا کیونکہ اس وقت نہ صرف داخلی محاذوں پر بلکہ خارجی عوامل کو دیکھتے ہوئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے قومی یکجہتی کی جتنی آج ضرورت ہے شاید ہی کبھی ہو ا س میں بھی کوئی شک نہیں کہ حزب اختلاف کو احتجاج کرنے اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے کا پورا حق ہے تاہم اس سلسلے میں حدود و قیود کی پابندی ضروری ہے‘اس طرح دونوں طرف سے ایک دوسرے کی مخالفت میں اس حد تک نہیں جانا چاہئے کہ جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو‘ سیاست نام ہی اس کا ہے کہ دورازے کبھی بند نہیں کئے جاتے اور آج کے دشمن یا مخالفین کل کے دوست ہو سکتے ہیں۔