قومی سیاست کے نشیب وفراز۔۔۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران قومی سیاست عجیب وغریب نشیب وفرازکاشکاررہی ایسے اقدامات بھی ہوئے کہ سیاست کھیل تماشا لگنے لگی سب سے حیران کن اقدام پی ڈی ایم کاقیام اور سینیٹ کے چیئرمین اوراپوزیشن لیڈرکاانتخاب تھا کسی کو بھی معلوم نہیں تھاکہ سیاست اور پارلیمانی امور میں ایسانقلاب آئے گاجب اپوزیشن اتحاد کےلئے مولانافضل الرحمن نے رابطوں کاآغاز کیاتوفوری طور پر سیاسی جماعتوں اورسیاسی قائدین نے اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی انکاخیال تھاکہ یہ بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں ہے لیکن مولانافضل الرحمن نے ایسی سیاسی سرگرمیاں دکھائیں کہ ان کے مخالفین کوبھی اپنی رائے بدلنی پڑی اور پھراچانک اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی خبریں میڈیا پر اچھی جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں تھوڑے ہی عرصے میں اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم منظرعام پر آگئی مولانافضل الرحمن کایہ بھی سیاسی کمال تھاکہ اتحادکی قیادت بھی ان کی جھولی میں آن پڑی ۔ اس نوعیت کااتحادماضی میں کبھی نہیں ہوا پی ڈی ایم کویہ اعزازبھی حاصل ہواکہ تمام بڑی جماعتوں کے علاوہ بعض چھوٹی جماعتوں نے بھی اتحادمیں شمولیت اختیارکرلی مولانافضل الرحمن نے بھرپورسیاسی صلاحیتوں کامظاہرہ کیا اور اس وقت سیاست میں زبردست ہلچل پیداہوگئی جب وہ آصف علی زرداری اورمیاں نوازشریف کوقریب لانے میں کامیاب ہوگئے اس طرح اس کااثرمجموعی طور پر بھی پڑا اور اس کی عزت اور سیاسی حیثیت میں اضافہ ہوا اس بار سینٹ کے انتخابات بھی بڑے حیران کن ثابت ہوئے حکومتی اتحاد نے سینٹ کے موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی کوہی انا امیدواربنانے کااعلان کیا جبکہ پی ڈی ایم نے سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کوسینٹ چیئرمین کا امیدوار نامزد کردیامقابلہ خوب ہوا لیکن جیت حکومتی امیدوار کی ہوئی پی ڈی ایم نے صادق سنجرانی کے انتخاب پر شدید تنقید کی اور چونکہ یوسف رضاگیلانی نے بھی یہ کہہ دیا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور انکے مدمقابل کی جیت ایک ووٹ سے ہوئی لیکن یہ ووٹ بھی سوالیہ نشان قراردیاگیا سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے عمل اور طریقہ کار کوبھی تنقیدکاسامناکرناپڑا چیئرمین سینٹ کے انتخابات کے بعد ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں سیاسی اتحادوں کی طرف سے کوئی خاص دلچسپی نہیں لی گئی تاہم ویسے تو سینٹ کے انتخابات کاعمل مکمل ہوگیاہے لیکن پی ڈی ایم نے اسے تسلیم نہیں کیا نہ جانے یہ پراسرارانتخابی معرکہ آگے چل کر کوئی نیارنگ لائے گا یا مٹی پاﺅوالی کیفیت ہی رہے گی جہاں تک قومی سیاست کا تعلق ہے تویہ ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے ۔میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے سیاسی میدان میں اہم کردار ادا کیا اور انہوں نے مسلم لیگ ن کوٹکڑوں میں بٹنے سے بچایا ، آگے کیا ہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی سیاست میں ہلچل کاسلسلہ جاری رہے گا اور ایسے حالات میں حکومت اور اپوزیشن دونوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسا ماحول تشکیل نہ دیں جس سے عوامی مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہو اس وقت ضرورت مہنگائی کو کم کرنے کی ہے اور اس سلسلے میں حکومتی اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ضروری ہے کہ اپوزیشن عوام کو سڑکوں پر لانے سے گریز کریں جس سے امن و امان کے مسائل پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔