پشتوصحافت کے سرسے سایہ اٹھ گیا

لگتاہے کہ خیبرپختونخواکے اہل صحافت کوکسی کی نظرلگ گئی ہے ابھی چند ہی دن ہوئے کہ خیبرپختونخواکے کہنہ مشق صحافی عبدالواحد یوسفزئی بڑی خاموشی سے خالق حقیقی سے جاملے اب تازہ حادثہ یہ ہوا ہے کہ خیبرپختونخوامیں پشتوصحافت سے سرکاسایہ اٹھ گیاہے جن کی موت سے پیداہونےوالی خلانہ صرف صحافت بلکہ ہرشعبہ زندگی میں محسوس ہوگی پیرسیدسفیدشاہ ہمدرد ہمہ پہلو شخصیت کے مالک تھے یہ افغانستان کی جنگ شروع ہونے کے وقت کی بات ہے کہ پیرصاحب صحافت میں کرداراداکرنے کےلئے بے چین نظرآئے ابتداءمیں انہوں نے درس و تدریس کے شعبے میں خدمات سرانجام دیں اور اس دوران انہوں نے پشتوکاایک ہفت روزہ میگزین حاصل کرلیاتھا کیونکہ وہ ایک وضع دارصحافی ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی معاملات پربھی تبادلہ خیال کرتے تھے انہوں نے جو ہفت روزہ حاصل کیاتھا وہ پشتومیں تھاکیونکہ نہ خیبرپختونخوا اورنہ ہی افغانستان سے پشتوکاکوئی اخباریاجریدہ نکلتاتھا پیرصاحب اس معاملے میں ہم سے بھی مشاورت کرتے رہتے تھے درس وتدریس کاشعبہ چھوڑنے کے بعدوہ ریڈیو پاکستان سے پشتومضامین اورتبصرے لکھتے تھے کیونکہ بڑاگرم ایشو تھا ‘ وہ کم بولتے تھے اوردھیمے لہجے میں گفتگوکرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو اولادکی دولت سے بھی نوازاتھا اور انہیں بیٹے بھی انتہائی فرمانبداراوراپنے اپنے شعبوں میں باصلاحیت ملے تھے پیرصاحب نے دوستوں کے مشورے کے بعد ہفت روزہ وحدت کوروزنامہ وحدت میں تبدیل کردیا اور اس مقصد کے لئے جتنے قانونی تقاضے تھے وہ انہوں نے پورے کئے امریکہ کی جنگ شروع ہوئی تو مجاہدین نے ہفت روزہ وحدت کواپناترجمان بنالیا پھرایساکرشمہ ہواکہ پیر سفید شاہ ہمدرد صحافت کی بلندیوں کو چھونے لگے مخالفین نے انہیں ڈرایادھمکایا اوراس مہم جوئی سے ہاتھ کھینچ لینے کے مشورے دئیے لیکن پیر صاحب دھن کے پکے تھے اورکسی بھی نقصان کی پرواہ کئے بغیراپنے محاذپرڈٹے رہے اوروحدت کی فائلیں بڑھتی ہی چلی گئی پیرصاحب کالباس اور حلیہ آخری دم تک یہی رہا اوروہ قومی لباس میں ملبوس رہتے ، وحدت بہت جلد صف اول کے روزناموں میں شمار ہونے لگا پیرصاحب کا یہ کمال تھاکہ وہ ایک نڈر،دل کی بات زبان سے نکالنے والے پختون سپوت تھے انہوں نے آخری دم تک ہارنہ مانی اور افغان لیڈران ان سے مسلسل رابطے میں رہتے ،باہمی مشاورت ہوتی۔پیرصاحب نے بڑی بھرپور زندگی گزاری ‘ وہ ایک دیندار، اورپرہیزگارانسان تھے جودوستوں سے ایسی گرم جوشی سے ملتے کہ وہ انہیں اپناسگابھائی سمجھتے نیت صاف ہوتواللہ بھی خوب مددکرتاہے۔ انہوں نے صحافت میں جو معیار قائم کیا وہ بہت کم صحافیوں کے بس کی بات ہے۔ پشاور کے دورے پر آنے والی اہم ملکی شخصیات پیر صاحب سے ملاقات ضرور کرتی تھیں اور ان سے مختلف امور پر تبادلہ خیال کرکے تسلی اور اطمینان محسوس کرتے۔ ہم نے پیرصاحب کے ساتھ بڑاوقت گزاراہے اوران کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کوبہت قریب سے دیکھاہے ،انہیں دنیائے صحافت میںاعلیٰ حیثیت حاصل کرنے میں کوئی مشکلات پیش نہ آئی ان کے بارے میں لکھنے کوبہت کچھ ہے‘ ہم تو صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ پشتوصحافت کے سر سے سایہ اٹھ گیا۔