منصب کرشمہ ساز

رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر انہیں دھاندلی کے ذریعے ہرایاگیا تو وہ آسانی سے وائٹ ہاﺅ س نہیں چھوڑیں گے۔اگر انتخابی نتائج کے اعلان میں غیر ضروری تاخیر کی گئی تو وہ دھاندلی تصور ہوگی۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر جوبائیڈن جیت گئے تو امریکہ چین کا دست نگر بن جائے گا۔ امریکہ کے نئے صدر کے انتخاب کے لئے ووٹنگ کا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔اگرچہ حتمی نتائج آنے میں ایک ماہ کا عرصہ لگے گا تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار اور سابق نائب صدر جوبائیڈن کو صدر ٹرمپ پر سات ریاستوں میں برتری حاصل ہے اور عمومی تاثر یہی ہے کہ صدارتی ٹاکرہ میں جوبائیڈن کا پلڑا بھاری ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر اربوں ڈالر کی جائیدادوں کا مالک ڈونلڈ ٹرمپ صدارت کی کرسی اپنے پاس رکھنے کے لئے کیوں تڑپ رہے ہیں ۔ پتہ چلا کہ جو مراعات اور سہولیات انہیں وائٹ ہاﺅس میں حاصل ہیں وہ دنیا کی کسی اور شخصیت کو حاصل نہیں، پھر کس کافر کا دل نہیں چاہے گا کہ صدارت کی کرسی سے چمٹا رہے ۔امریکہ کا صدر دنیا کا طاقتور ترین شخص سمجھا جاتا ہے اور اس کو ماہانہ 33ہزار333 ڈالرز تنخواہ کی مد میں ملتے ہیں۔جو پاکستانی کرنسی میں تقریباً 55لاکھ روپے بنتے ہیں۔مراعات اور سہولیات ماہانہ تنخواہ کے علاوہ ہیں۔ عہدہ ختم ہونے کے بعد بھی امریکی صدر کو مراعات ملتی رہتی ہیں۔دو بوئنگ 747 طیارے صدر کے استعمال میں رہتے ہیں، جنہیں ائیرفورس ون کہا جاتا ہے۔ طیارے میں صدر کے لیے خصوصی اپارٹمنٹ میں آفس، بیڈ روم اور جیم ہوتا ہے۔طیارے میں ایک آپریشن تھیٹر اور ڈاکٹر بھی موجودہوتا ہے۔ طیارے میں 85 ٹیلی فون، 19 ٹی وی سیٹ بھی ہوتے ہیں۔صدر کے پاس میرین ون خصوصی ہیلی کاپٹر ہوتا ہے، جسے مختصر سفر کے لیے استعمال کرتاہے۔ امریکی صدر لیموزین کار استعمال کرتے ہیں۔گراونڈ فورس نامی بلیک آرمرڈ بس صدر اور دیگر اہم ملکی و غیرملکی شخصیات کے استعمال کے لئے موجود ہوتی ہے ۔واشنگٹن میں وائٹ ہاوس کے علاوہ کیمپ ڈیوڈ میں امریکی صدر کے لیے خصوصی رہائش گاہ بنائی گئی ہے، جہاں وہ اہم ملاقاتیں کرنے اور چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں۔ صدر کے مہمانوں کیلئے119کمروں پر مشتمل سٹیٹ گیسٹ ہاﺅس ہے جسے بلیئرہاوس کہا جاتا ہے۔امریکی صدر کے پاس ایک خصوصی بریف کیس ہوتا ہے، جس میں ایسی کمونیکیشن ڈیوائسز ہوتی ہیں، جن سے امریکی صدر دنیا کے کسی بھی حصے پر ایٹمی حملے کا حکم دے سکتا ہے۔عہدہ صدارت ختم ہونے کے بعدامریکی صدر کو سالانہ تقریبا دو لاکھ ڈالر پنشن کی مد میں ملتے ہیں تاحیات سیکورٹی، سفری اخراجات اور علاج معالجہ کی سہولت اس کے علاوہ ہیں‘ پاکستان جیسے ترقی پذیر اور پسماندہ ملک میں سیاست دانوں کے منہ کو ایک بار اقتدار کا چسکا لگ جائے تو وہ دوبارہ مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہونے کےلئے نہ صرف ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے ہیں بلکہ جان جوکھوں میں بھی ڈالتے ہیں کیونکہ ایک بار انہیں ایوان اقتدار تک رسائی مل جائے تو ساری کسر پوری کرنے ان کے پاس پورا پورا موقع ہوتا ہے ۔امریکی صدارتی مہم کےلئے پارٹیاں اپنے امیدوار کی چندہ کشی کے ذریعے مالی مدد کرتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں امیدوار نہ صرف پارٹی کو کروڑوں روپے چندے ، عطیے اور تحفوں کی صورت میں دیتا ہے بلکہ انتخابی مہم میں بھی وہ اپنے پلے سے کروڑوں روپے لگاتا ہے اور کسر نفسی کا یہ عالم ہے کہ جب الیکشن کمیشن انتخابی اخراجات کے گوشوارے مانگتا ہے تو چند لاکھ روپے بتاتا ہے ۔دوسروں سے مختلف، نمایاں اور منفرد نظر آنا انسان کی فطری کمزوری ہے۔ جب انسان وی وی آئی پی منصب پر پہنچتا ہے تو اس کے آگے پیچھے خادموں کی فوج ظفر موج ہوتی ہے جب باہر نکلتا ہے تو آگے پیچھے ہوٹر بجاتی درجنوں گاڑیاں ہوتی ہیں جہاں سے وی وی آئی پی کا قافلہ گذرتا ہے وہاں سے چڑیا کو بھی پرمارنے کی اجازت نہیں ہوتی۔پھر کون نہیں چاہے گا کہ ایسی ٹھاٹ باٹ کا رتبہ میسر ہو۔اور پھر بات دنیا کی واحد سپرطاقت کے ہیوی ویٹ عہدہ صدارت کی ہو۔توبات کا انداز ہی بدل جاتا ہے۔ وہ صرف امریکہ کا ہی نہیں، پوری دنیا کا صدر ہوتا ہے۔ وہ جس کی بھاگیں چاہے کھینچ سکتا ہے، جہاں چاہے آگ و خون کا کھیل برپا کرسکتا ہے۔سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید کہہ سکتا ہے ۔شاعر نے شاید امریکی صدر کے اختیارات کی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا کہ خردکانام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔