پشاور: پاکستان میں ذیابیطس کے مرض نے وبائی صورت اختیار کرلی ہے‘اس وقت 19ملین سے زیادہ افراد اس مرض کا شکار ہیں۔
تقریباً 14.4فیصد وہ افراد ہیں جنہیں ذیابیطس لاحق ہونے سے پہلے والامرحلہ لاحق ہوگیاہے‘اگر فوری تدارک نہ کیا گیاتو دنیا میں ذیابیطس میں مبتلا افراد کی درجہ بندی میں پاکستان 2030ء تک 26.2ملین افراد کے ساتھ چوتھے نمبر پر آجائیگا۔
پروفیسر عبد الباسط نے عالمی سطح پر ذیابیطس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد463ملین سے زیادہ ہے‘ اگر اس کی روک تھام کے لئے اقدامات بروئے کار نہ لائے گئے تو امکان ہے کہ 2030ء تک ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد576ملین تک پہنچ جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ذیابیطس ایک کہنہ اور تاحیات رہنے والا مرض ہے اور تحقیقات سے ثابت ہے کہ ذیابیطس قسم دوم عموماً خاندان میں چلتی ہے‘ذیابیطس میں مبتلاہر دو افراد میں سے ایک فرد اپنے مرض سے لاعلم ہے‘ لہذاخاندان میں موجودخطراتی عوامل رکھنے والے افراد کی فوری نشاندہی ضروری ہے‘خطراتی عوامل مٹاپا، غیر متحرک و غیر فعال زندگی، خاندان میں ذیابیطس کا مرض ہونا،وہ خواتین جن کو حمل کے دوران ذیابیطس ہوئی ہو، بڑھتی ہوئی عمر وغیرہ پر مشتمل ہیں۔
ذیابیطس قسم اول لاحق ہونے سے تو نہیں بچایا جا سکتا‘ تاہم ذیابیطس قسم دوم کو معیاری وزن اور متحرک زندگی سے روکا جاسکتا ہے‘جس کے لئے متوازن و منا سب غذا اور روزانہ نصف گھنٹہ کی ورزش یا تیز تیزچہل قدمی ضروری ہے اوریہ بات مختلف تحقیقات سے عیاں ہے کہ80ٰفیصد افرادکو ذیابیطس قسم دوم لاحق ہونے سے بچایا جا سکتا ہے‘اس کے علاوہ ذیابیطس کی فوری نشاندہی سے ممکنہ پیچیدگیوں سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔