زرعی خود کفالت کی منزل۔۔

خےبر پختونخوا کسان بورڈ نے حکومت کو چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کردیا ہے جس میں کاشتکاروں کو بلاسود قرضے فراہم کرنے، ٹےکسوںکے خاتمے سمےت دےگر مطالبات شامل ہیں۔چارٹر آف ڈیمانڈ میں وفاق اور خےبر پختونخوا حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ سگرےٹ سازی کے تمام کارخانے خےبر پختونخوا مےں لگائے جائےں۔تمباکو کی پیداوارسے حاصل ہونے والی 130ارب روپے کی آمدن مےں سے 30ارب روپے تمبا کو اُگانے والے اضلاع کی ترقی پر خر چ کئے جائےں۔کسانوں کا موقف ہے کہ سوات اور صوبے کے دیگر علاقوں مےں باغات سے حاصل شدہ 50فےصد پھل پروسےسنگ پلانٹ نہ ہونے کے باعث ضائع ہو جا تا ہے حکومت پروسےسنگ پلانٹ لگانے کےلئے آساں شرائط پر بلاسود قرضے فراہم کرے تاکہ پھلوں کو ضائع ہونے سے بچاےا جاسکے۔ گڑگھانےوںکو ٹیکسوں سے چھوٹ دی جائے تاکہ اس اہم گھرےلو صنعت کوتباہ ہو نے سے بچایا جاسکے۔ ضم اضلاع مےں زراعت کی ترقی کےلئے بلاسود قرضوں اور خصوصی پےکج کی فراہمی بھی چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل ہے۔خیبر پختونخوا کا 60فیصد پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے جہاں مخصوص اقسام کی فصلیں اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔وہاں کی زرعی پیدوار مقامی آبادی کی ضروریات کےلئے بھی ناکافی ہے تاہم صوبے کے 40فیصد میدانی علاقوں میں زراعت کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کرکے صوبے کی سطح پر زرعی خود کفالت کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے صوابی، مردان اور چارسدہ میں دنیا کی بہترین تمباکو کی فصل پیدا ہوتی ہے۔ مانسہرہ کی وادی پکھل کے علاوہ بٹگرام کی زمین اور آب و ہوا چائے کی فصل کےلئے انتہائی موزوں ہے۔ہری پور، صوابی، مردان، چارسدہ، بٹ خیلہ، سوات، دیر، چترال اور جنوبی اضلاع کے میدانی علاقے چاول کی فصل کےلئے نہایت موزوں ہیں لیکن وہاں کے کاشت کار آج بھی سینکڑوں سال پرانے تخم استعمال کرتے ہیں۔کیمیاوی کھاد، فصلوں کو بیماریوں سے بچانے کی ادویات وغیرہ سے ہمارے 95فیصد کاشت کار ناواقف ہیں۔اس وجہ سے فی ایکڑ پیداوار انتہائی کم ہونے کی وجہ سے ہم گندم، دالیں ،پھل اور سبزیاں بھی دیگر صوبوں اور بیرون ملک سے منگواتے ہیں۔مانسہرہ کے بالائی علاقے، بٹگرام، کوہستان، شانگلہ، بونیر، سوات‘ دیر اور چترال کے علاقے خوبانی، ناشپاتی، سیب، انگور، آڑو، مالٹے،توت، لوکاٹ، زیتون،املوک، بیری، اخروٹ، بادام ‘ چلغوزے‘ امرود اور دیگر پھلوں کےلئے مشہور ہیں ۔صوبے کے اکثر دیہی علاقوں سے منڈی تک ہموار راستہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ رسیلے ، لذیذ اور اعلیٰ معیار کے پھل ضائع ہوجاتے ہیں۔ اگر حکومتی ادارے زرعی پیداوار ، سبزیوں اور پھلوں کی کاشت، نگہداشت اور مارکیٹنگ کے طریقوں سے کاشت کاروں کو آگاہی فراہم کرے، انہیں بہترین اقسام کے تخم ، ادویات اور کھادیں بہم پہنچائے تو نہ صرف سال کے بارہ مہینے پھلوں کی دستیابی ممکن بنائی جاسکتی ہے بلکہ ضائع ہونے والے پھلوں کی مارکیٹنگ کے ذریعے دیہی علاقوں کے لوگ اپنا معیار زندگی بھی بہتر بناسکتے ہیں۔پاکستان زرعی ملک ہونے، یہاں زرخیز زمین، وافر آبی وسائل اور موافق موسم ہونے کے باوجود ہم بیشتر زرعی اجناس درآمد کرتے ہیں۔ہمارے ملک میں زراعت کی ترقی کےلئے درجن بھر ادارے قائم کئے گئے ہیں اور زرعی قرضوں کی فراہمی کےلئے الگ بینک بھی کھولاگیا ہے مگر ہمارے کسان آج بھی صدیوں پرانے طریقوں پر عمل پیرا ہیں انہیں زرعی ٹیکنالوجی کا پتہ ہی نہیں ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ زرعی ترقی کےلئے قائم ادارے اپنی افادیت کھوچکے ہیں ۔ اپنے اہداف سے بہت دور اور اپنے ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات کے متقاضی ہیں ۔اضلاع اور تحصیل کی سطح پر تحقیقی مراکز، پروسیسنگ سینٹرز، پیکنگ کی سہولیات اور جدید سائنسی معلومات کی فراہمی کا اہتمام کیا جائے تو نہ صرف زرعی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کیاجاسکتا ہے اور زرعی اجناس میں خود کفالت کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے بلکہ زراعت کے شعبے میں لاکھوں افراد کو روزگار بھی مل سکتا ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت وسیع تر قومی مفاد میں کسانوں کے چارٹر آف ڈیمانڈ پر سنجیدگی سے غور کرے۔