شریک جرم نہ ہوتے تو ……!

 دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی کرنے کے جاری رجحان میں ’پشاور کے وسائل‘ پر دباؤ برقرار ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان میں شہروں کی جانب نقل مکانی کا رجحان جنوب ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ یعنی 36.4 فیصد ہے اور اِس کا پہلا نقصان ماحول کو پہنچتا ہے جبکہ دوسرا نقصان مستقل و مسلسل عوامی مشکلات کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ اِس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے پرائیویٹ ہاؤسنگ سکیم ریگولیشنز 2019ء‘ نامی مجریہ (قانون) بنایا گیا جس کے تحت نئی رہائشی بستی کے لئے قواعدوضوابط وضع کئے گئے لیکن قانون اپنی جگہ اہم اور اِس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ایسی ’ہاؤسنگ سوسائٹیز‘ کا شمار سینکڑوں تک جا پہنچا جنہیں غیرقانونی قرار دے کر ہر قسم کے تعمیراتی و ترقیاتی کاموں پر پابندی عائد کرنا پڑی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ پشاور کی حدود میں 181 ایسی ’ہاؤسنگ سوسائٹیز‘ کی نشاندہی ہوئی ہے‘ جنہیں ’غیرقانونی‘ قرار دیا گیا ہے اور اِن کالونیوں میں جائیداد کی خریدوفروخت پر پابندی عائد کر کے سزا اُس طبقے (ہم عوام) کو دی گئی ہے‘ جن کا کوئی قصور نہیں۔ ”شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے …… ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی (ازہر درانی)۔“ ہاؤسنگ سوسائٹیز سے متعلق مذکورہ مجریہ (قانون) کو ایک سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے اور اِس پر عرصے کے دوران پہلی مرتبہ غیرقانونی سوسائٹیز کے خلاف ’ایکشن‘ لیا گیا ہے‘نئے قانون کے تحت 100 کنال اراضی سے کم پر ہاؤسنگ سوسائٹی نہیں بن سکتی۔ اِسی طرح ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کیلئے اراضی کا قانونی حصول پیشگی کیا جائے جسے بعدازاں فروخت ہونا چاہئے لیکن معاملہ یہ ہے کہ 100کنال سے کم اراضی پر ہاؤسنگ سوساٹیئز قائم ہیں جبکہ ایسی کالونیاں بھی ہیں جن کی اراضی کے مالکان انفرادی حیثیت میں انتقالات کرتے ہیں اور یوں قطعات اراضی فروخت کرنے کے بعد اُس کے ترقیاتی کاموں کو جوں کا توں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ قانون میں یہ بھی لکھا ہے کہ کسی ہاؤسنگ کالونی تک آمدورفت کے راستے کی چوڑائی کم سے کم 30 فٹ ہونی چاہئے اور جس اراضی پر رہائشی کالونی بنائی جا رہی ہے اُس سے متعلق ضلعی حکومت سے اجازت نامہ بھی حاصل کرنا ہے کہ مذکورہ اراضی صوبائی یا ضلعی حکام کو کسی سرکاری مقصد کے لئے درکار نہیں۔ اِسی طرح رہائشی کالونی کا کم سے کم 7 فیصد رقبہ خالی چھوڑنا بھی ضروری ہے جہاں سبزہ زار (پارک) بنایا جائے‘ 2 فیصد رقبہ برائے قبرستان‘ 5فیصد برائے سرکاری دفاتر اور 5فیصد رقبہ کاروباری سرگرمیوں کے لئے مختص ہونا چاہئے۔ علاوہ ازیں زیادہ سے قطعہئ اراضی (پلاٹ) سائز 2 کنال جبکہ کم سے کم 3 مرلے (816.75مربع فٹ) ہونا چاہئے۔ کالونی کی داخلی سڑکوں میں بنیادی سڑک 30 فٹ چوڑی ہونی چاہئے اور کالونی میں 10 مرلہ اراضی کوڑا کرکٹ جمع کرنے یا اِس کی تلفی کے لئے مختص ہونا چاہئے۔ قانون اور قواعد و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر پشاور کی حدود میں جملہ ہاؤسنگ سوساٹیز کا جائزہ لیا جائے تو کوئی اِن میں سے ایک بھی بمشکل مذکورہ قانون و قواعد پر پوری اُترے گی! تو آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے؟ قانون سازوں نے قانون بنا کر اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ قانون پر عمل درآمد کرنے والوں نے اعلامیہ جاری کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ عوام کا واسطہ مشکل حالات سے ہے‘ جس میں اچھے اور بڑے ناموں سے رہائشی منصوبے تو موجود ہیں لیکن وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔