ادھوری خوشخبری۔۔

پاکستان میڈیکل کمیشن نے خیبرپختونخوا کے سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں نشستوں کی تعداد 10 فیصد بڑھا دی ہے جبکہ باچا خان میڈیکل کالج مردان اور باچا خان کالج آف ڈینٹسٹری مردان کی نشستوں میں 100 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ ادھوری خوشخبری (نشستوں میں اضافہ) خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے درخواست کا نتیجہ ہے‘ جس سے متعلق ’خیبر میڈیکل یونیورسٹی‘ نے بھی سفارشات مرتب کی تھیں۔ اضافے سے ’باچا خان میڈیکل کالج‘ میں نشستوں کی تعداد 50سے 100جبکہ باچا خان ڈنٹسٹری کالج میں نشستوں کی تعداد 25سے 50 ہو گئی ہیں۔ دیرینہ مطالبہ اور برسرزمین کم سے کم ضرورت یہ تھی کہ تمام سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں زیرتعلیم طلبہ کی تعداد میں کم سے کم 100فیصد اِضافہ کیا جاتا کیونکہ ہر سال سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں طلبہ طب کی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں! سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں تدریسی عمل کے لئے تکنیکی سہولیات میں اِضافہ اور بالخصوص کورونا وبا کی وجہ سے آن لائن تدریسی نظام میں سرمایہ کاری کرنے کا بھی یہی سب سے مناسب درست وقت ہے۔پاکستان میں طبی درسگاہوں کی کل تعداد 167 ہے جن میں 102 میڈیکل اُور 65 ڈینٹل کالجز ہیں اُور اِن تعلیمی اداروں کی اکثریت کا تعلق آبادی کے لحاظ سے بڑے صوبے پنجاب سے ہے۔ اعلیٰ و پیشہ ورانہ تعلیم میں سرمایہ کاری سے زیادہ کوئی دوسری اہم چیز نہیں ہو سکتی کہ ایک طرف تو پاکستان میں طب کی تعلیم کے مواقع (آبادی کے تناسب سے) کم ہیں اور دوسری طرف طب کے شعبے میں تحقیق بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے پاکستان کے طبی نظام پر جو بوجھ اپنی جگہ برقرار ہے اور صرف علاج گاہیں ہی نہیں بلکہ طبی اور معاون طبی عملے کی کمی بھی شدت سے محسوس ہو رہی ہے لیکن اِس افرادی قوت جیسی کمی پورا کرنا حکومت کی ترجیحات کا حصہ نہیں اور اگر یہ بات حقیقت نہ ہوتی تو تعلیمی سال 2021ءکےلئے طب کی تعلیم میں اُن سبھی طلبہ کو داخلہ مل چکا ہوتا جو عملی زندگی میں ڈاکٹر بننے کے خواہشمند ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ بنیادی تعلیم رکھنے والے ایک ’ڈاکٹر سازی‘ میں کم سے کم چھ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور کورونا کی پہلی لہر کے تسلسل میں جاری مبینہ دوسری لہر کو مدنظر رکھتے ہوئے حالات کا تقاضا یہ تھا کہ ڈاکٹروں کی کھیپ تیار کی جائے۔ طب کی تعلیم کو سیاحت کی طرح فروغ دیا جائے تاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے بھی پاکستان کا رخ کریں اور صحت عامہ (علاج معالجے کے نظام) کو شہروں کی بجائے مضافاتی اور شہروں سے متصل دیہی علاقوں تک وسعت دی جائے کیونکہ کورونا وبا ایک ایسے مہمان کی صورت ہر ملک اور ہر شہر میں آ ٹھہری ہے کہ جس کا قیام طویل اور خطرہ ناقابل یقین حد تک زیادہ ہے۔پاکستان میڈیکل کمیشن ایکٹ 2019ءقومی اسمبلی کے دوسرے پارلیمانی سال (13 اگست 2019ءسے 12 اگست 2020ئ) کے درمیان منظور ہوا۔ کئی قانون‘ انتظامی و مالی سقم دور ہوئے لیکن اصل ضرورت جو کہ طب کے تعلیمی اداروں کی تعداد اور نشستوں میں اضافے سے متعلق ہے اپنی جگہ برقرار ہے۔ خیبرپختونخوا میں کل 17 نجی ادارے طب کی تعلیم فراہم کر رہے ہیں اِن میں گیارہ میڈیکل اور چھ ڈینٹل کالجز کی کل نشستیں 1425 بنتی ہیں۔ تعلیمی سال 2021ءکے لئے ملک بھر سے 2 لاکھ سے طلبا و طالبات نے داخلے کا امتحان دیا جن میں سے 80ہزار پنجاب‘ 50 ہزار سندھ‘ 35 ہزار کا تعلق بلوچستان و خیبرپختونخوا سے تھا۔ پاکستان میڈیکل کمیشن کی وضع کردہ (نئی) داخلہ پالیسی کے تحت میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ MDCAT) میں کامیابی کے لئے کسی اُمیدوار کےلئے کم سے کم 60 فیصد نمبر حاصل کرنا ضروری تھا جبکہ گیارہویں اور بارہویں کلاس (ایف ایس سی) کے کل نمبروں کو ملا کر داخلے کی اہلیت 65 فیصد رکھی گئی چونکہ درخواست گزاروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اِس لئے سرکاری میڈیکل کالجز میں صرف اُنہی طلبا و طالبات کو داخلہ مل سکا جنہوں نے مذکورہ امتحانات میں 80 فیصد یا اِس سے زیادہ نمبر حاصل کئے تھے۔ یوں خیبرپختونخوا کے 17 نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجز جن کے پاس کل نشستیں 1425 ہیں اُنہیں 4316 میڈیکل اور 2655 ڈینٹل کالجوں میں سے طلبہ کا اِنتخاب کرنے اِختیار یوں دیا گیا کہ وہ ’ایف اَیس سی‘ اور ’ایم ڈی کیٹ‘ کے علاو¿ہ اہلیت جانچنے کے اپنے کسی پیمانے پر ہر درخواست گزار سے بات چیت اور تحریری امتحان کے ذریعے 20 نمبر دے سکیں۔ حکومت نے جانب سے 2 لاکھ طلبہ سے ’ایم ڈی کیٹ‘ امتحان کی فیسیں وصول کرنے اور چند سو کو داخلہ دینے کے بعد طلبہ کو نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کے حوالے کر دیا گیا جہاں درخواست گزاروں کی حسب تعداد نشستیں نہیں اور یوں نجی اداروں تعلیم کے بھاری مالی اخراجات برداشت کرنے والے ہی ترجیحی بنیادوں پر داخلہ حاصل کر لیں گے۔ لائق توجہ یہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں داخلے سے محروم رہنے والے طلبا و طالبات کہاں جائیں؟ اہلیت کے باوجود بھی اگر طب کی تعلیم میں داخلہ نہیں ملتا اور ایسے طلبہ کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے تو اِس میں اُن کا قصور کیا ہے؟ طب کی تعلیم سے متعلق قوانین و قواعد سازی (اِصلاحات) پر توجہ مرکوز کرنا اپنی جگہ اہم لیکن درس و تدریس کے عمل کو وسعت دینا اور آبادی کے تناسب سے تعلیمی مواقعوں میں اضافہ کرنا بھی تو قومی و صوبائی فیصلہ سازوں ہی کی ذمہ داری بنتی ہے!؟ (علم اور معلومات تک رسائی کا کوئی ’شارٹ کٹ‘ نہیں اور نہ ہی کسی حکمت عملی میں موجود نقائص کی نشاندہی اُس سے متعلق قوانین و قواعد کا مطالعہ کئے بغیر ممکن ہے۔ پاکستان میں طب کی تعلیم اور اِس کے نگران ادارے سے متعلق 2 دستاویزات حرف حرف لائق مطالعہ ہیں۔ تیس صفحات پر مشتمل ’پاکستان میڈیکل کمیشن ایکٹ 2019ئ‘ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ (na.gov.pk) سے جبکہ آٹھ صفحات پر مشتمل ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کی نئی داخلہ پالیسی (جسے ’ترمیمی داخلہ قواعد‘ کا نام دیا گیا ہے) ویب سائٹ (pmc.gov.pk) کے دستاویزی (documents) حصے سے بذریعہ انٹرنیٹ رابطہ مفت حاصل (download) کیا جا سکتا ہے۔)