قومی ایوان اور عوامی توقعات۔۔۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے شدید احتجاج کے دوران حکومت نے سی پیک اتھارٹی کے قیام سمیت3 بل کثرت رائے سے منظور کر وا لئے۔ اس دوران اپوزیشن نے احتجاج جاری رکھا مگر سپیکر نے کسی کو بولنے کی اجازت نہ دی اور ایجنڈے میں موجود بل پیش کرنے کےلئے متعلقہ وزیروں کو ہدایت کردی ۔ مشیرپارلیمانی امورنے پاکستان قومی ادارہ برائے نظام اوزان پیمائش بل اورپاکستان آرڈیننس بورڈ ترمیمی بل پیش کیا جن کو اسپیکر نے مزید غوروخوض کےلئے متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بجھوادیا۔ اپوزیشن کے احتجاج کے دوران حکومت نے سی پیک اتھارٹی بل ،پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ترمیمی بل اور پاکستان سنگل ونڈو بل منظوری کےلئے پیش کیا جنہیں ایوان نے کثرت رائے سے منظوری دیدی ۔سی پیک بل کے تحت سی پیک اتھارٹی کے چیئرپرسن اور اراکین کا تقرر چار سال کےلئے ہوگا جبکہ چیئرمین اور اراکین کی مدت ملازمت میں ایک بار چار سال کےلئے توسیع ہوسکے گی ۔کسی بھی ایسے شخص کو بطور چیئرپرسن ،رکن یا اور کوئی عہدہ نہیں دیا جائے گا جس سے بلواسطہ یا بلاواسطہ کوئی مفادات کا ٹکراﺅ ہو،ایڈیٹر جنرل آف پاکستان اتھارٹی کے سالانہ حسابات کی جانچ پڑتال کرے گا ۔اتھارٹی اپنی سالانہ رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرنے کی پابند ہوگی۔قانون سازی کے دوران اپوزیشن ارکان نے سپیکر کی ڈائس کا گھیراﺅ کیا اور نعرے بازی شروع کردی ۔اپوزیشن ارکان نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور انہیں اسپیکر ڈائس پر اچھالا ۔پوری کاروائی کے دوران ایوان اپوزیشن ارکان کی شدید نعرے بازی سے گونجتا رہا۔قومی ایوانوں میں ہنگامہ آرائی کے واقعات دنیا کے مختلف ملکوں میں ہوتے رہتے ہیں بعض ایوانوں میں دھینگامشتی اور مارکٹائی کے واقعات بھی ہوتے ہیں جوتے اور کرسیوں سے منتخب ارکان ایک دوسرے کی تواضع کرتے ہیں۔کچھ لوگ قومی ایوانوں میں ہنگامہ آرائی، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی کے واقعات کو بھی جمہوریت کا حسن قرار دیتے ہیںاگر حسن کا یہ عالم ہے تو بدصورتی نجانے کیا ہوگی۔ بیشک اختلاف رائے کی گنجائش ہرجگہ موجود ہوتی ہے۔ افلاطون نے اختلاف رائے کو حقائق تک رسائی کا بہترین ذریعہ قرار دیا ہے لیکن قومی ایوانوں میںاختلاف تعمیری ہونا چاہئے کسی بل کے ممکنہ منفی پہلوﺅں کو اجاگر کرنا اپوزیشن کی ذمہ داری ہے دلائل کے ساتھ ثابت کرنا چاہئے کہ بل کے فوائد اس کے نقصانات سے کم ہیں۔ لیکن اختلاف برائے اختلاف قومی مفاد کے منافی ہے۔قومی اسمبلی کے لئے عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب ملک و قوم کے مفاد میں قانون سازی کےلئے کرتے ہیں جب منتخب نمائندے قانون سازی میں رکاوٹ بن جائیں تو یہ عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے۔قوم کو آج کورونا وبائ، بیرونی خطرات، دہشت گردی، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ یہی موقع ہے کہ قومی ایوانوں میں بیٹھے منتخب عوامی نمائندے عوام کو مہنگائی کے منحوس چکر سے نکالنے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کریں آئین اور قانون عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی کےلئے بنائے جاتے ہیں انسان کے بنائے ہوئے قوانین میں وقت گذرنے کے ساتھ ترمیم اور اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے قومی مفاد اور وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ قانون سازی ہرملک میںہوتی ہے۔تبدیلی کا یہ عمل عین جمہوری تقاضا ہے۔ آج حزب اختلاف اور حزب اقتدار کی جماعتوں کو اپنے سیاسی اختلافات پس پشت ڈال کر قوم کے مفاد کا سوچنا ہوگا۔قوم ان کی نورا کشتی دیکھ کر دلبرداشتہ ہوچکی ہے۔