ہکلاہٹ یا زبان کی لکنت: لوگ کیوں ہکلاتے ہیں اور اس کا علاج کیا ہے؟

ہکلاہٹ یا زبان کی لکنت نے لوگوں کی زندگیوں، اسکول کے زمانے، ملازمتوں اور معاشرتی زندگیوں کو کس طرح متاثر کیا ہے، اس حوالے سے ہم سب کے پاس ضرور کسی نہ کسی کی کہانی ہوگی۔ متاثرہ افراد کو اس سے نمٹے اور دوسروں کی جانب سے مذاق اڑائے جانے کی وجہ سے کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حالانکہ ہکلاہٹ اتنا عام مرض نہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے اِردگِرد ایسے کئی افراد ہوتے ہیں، جو اس مرض میں مبتلا ہیں۔ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 7 کروڑ سے زائد افراد (تقریباً دنیا کی ایک فیصد آبادی) ایسے ہیں جو ہکلاتے ہیں یا جن کی زبان میں لکنت ہے۔ وہ گفتگو کے دوران کسی ایک حرف کی آواز کو بار بار دُہراتے ہیں، کسی لفظ میں موجود ایک حرف (عموماً شروع کا حرف) کو ادا نہیں کر پاتے اور بڑی مشکل سے اپنا جملہ مکمل کرتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کو دیگر مشکلات کا سامنا بھی رہتا ہے، جیسے کے آنکھوں کا بار بار جھپکنایا ہونٹ کپکپانا۔ ایسا وہ جان بوجھ کر نہیں کرتے بلکہ یہ عمل ان سے غیر اختیاری طور پر سرِزد ہوتا ہے۔ زبان میں لکنت آسانی سے ظاہر ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو دوسروں سے بات کرنے میں جھجک محسوس ہوتی ہے، جس کے باعث ان کی زندگی کا معیار بھی متاثر ہوجاتا ہے۔

لوگ کیوں ہکلاتے ہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہکلانے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں نفسیاتی اور موروثی عوامل بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر گھر، اسکو ل یا دفتر میں ملنے والا ذہنی دباؤ، جینز میں پایا جانے والا کوئی نقص یا کوئی جسمانی کمی، اس کی ممکنہ وجوہات میں شامل ہیں۔ بات کرنے کی اس تکلیف کا سب سے زیادہ شکار بچے ہوتے ہیں۔ دو سے پانچ سال کی عمر میں اکثر بچے ہکلاتے ہیں، یہ وہ عمر ہے جب ان کی بولنے کی صلاحیت میں اضافہ ہورہا ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ فیصد بچے اس عمر میں ہکلانے لگتے ہیں۔ یہ ہکلانا عموماً وقتی ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔

انسانی آواز کئی مربوط پٹھوں کی حرکت سے پیدا ہوتی ہے۔ اس عمل میں سانس لینے، پٹھوں، ہونٹوں اور زبان کے حرکت کرنے کا اہم کردار ہوتا ہے۔ نرخرے اور اس کے اردگرد موجود پٹھوں کی حرکت کا تعلق ذہن سے ہوتا ہے۔ دماغ بولنے کے ساتھ ساتھ سننے اور چھونے کی صلاحیتوں کو بھی مانیٹر کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں میں ہکلاہٹ کی وجہ نشوونما میں تاخیر ہوتی ہے، جو عمر کے ساتھ ساتھ اکثر ختم ہو جاتی ہے جبکہ بڑی عمر کے افراد میں اس مسئلے کی وجہ فالج یا دماغ کی چوٹ بھی ہو سکتی ہے۔ ایسے میں معاشرے کو چاہیے کہ وہ ہکلاہٹ کو بیماری کے بجائے ایک ’اسپیچ ڈس آرڈر‘ سمجھے۔ اگر کسی بچے میں ہکلاہٹ کی علامات نظر آئیں تو اسے فوراً اسپیچ تھراپسٹ کے پاس لے جایا جائے تاکہ کم عمری میں ہی بچے کی ہکلاہٹ پر قابو پایا جا سکے۔

ہکلاہٹ کا علاج

گنگنانے، زور زور سے پڑھنے اور بات کرنے سے وقتی طور پر ہکلاہٹ میں کمی آسکتی ہے۔ فی الوقت زبان کی لکنت سے بچنے کا طریقہ تو دریافت نہیں ہو پا یا ہے، البتہ اس کے علاج کے لیے مختلف اقسام کے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ علاج کی نوعیت انسان کی عمر ، تبادلہ خیال کرنے کے مقاصد اور دیگر عوامل پر منحصر ہوتی ہے۔ چھوٹے بچوں کی عام طور پر اسپیچ تھراپی کی جاتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ابتدائی عمر میں ہی اگر بچوں کی اس تکلیف کا علاج کرلیا جائے تو انھیں آگے چل کر اس مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

والدین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ بچوں کی ہکلاہٹ دور کرنے کے لیے انھیں گھر میں مثبت ماحول مہیا کرنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کی اجازت دیں جبکہ ہر وقت انھیں ٹوکنے سے بھی منع کیا جاتا ہے۔ ایسے بچوں سے دھیمے لہجے میں دھیرے دھیرے بات کرنی چاہیے تاکہ ان پرزیادہ دباؤ نہ پڑے۔ ساتھ ہی کھل کر ایسے بچوں کی بات سننے اور سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔

اسپیچ تھیراپی میں بچوں کو رک رک کے بات کرنے، گفتگو کے دوران زیادہ سے زیادہ سانس لینے اور چھوٹے چھوٹے جملے بولنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ بچوں سے ان کی زندگی اور ذہنی تناؤ کے بارے میں بھی بات چیت کی جاتی ہے۔ معالج عام طور پر بڑوں کو بھی اسپیچ تھراپی کا ہی مشورہ دیتے ہیں ۔ زبان کی لکنت کے لیے ادویات کا استعمال درست تصور نہیں کیا جاتا، البتہ ڈپریشن یا اسٹریس دور کرنے کے لیے ادویات دی جاسکتی ہیں۔