محکمہ تعلیم کی نئی ریٹائرمنٹ پالیسی۔۔۔۔

حکومت نے محکمہ تعلیم میں نئی ریٹائرمنٹ پالیسی کا اعلان کردیا ہے۔جس کے تحت محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم میں غیر تسلی بخش کارکردگی والے افسروں اوراساتذہ کو وقت سے پہلے ریٹائر کرنے پر کام شروع کردیاگیا۔محکمہ تعلیم نے ملازمین کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے 20 سال سروس مکمل کرنے والے اساتذہ و افسران کا ریکارڈ طلب کرلیا ہے، تمام ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹیز سے ملازمین کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے ہدایت کی گئی ہے کہ بیس سال سروس مکمل کرنے والے اساتذہ و افسران کا ریکارڈ فی الفور بھجوایا جائے۔ سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے ہدایت کی ہے کہ ریکارڈ میں افسران و اساتذہ کا گریڈ، ملازمت شروع کرنے کی تاریخ اور سروس کا دورانیہ واضح کیا جائے اساتذہ و افسران کی کارکردگی رپورٹ بھی فراہم کی جائے سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے تمام اتھارٹیز کو31 مئی تک تمام ریکارڈ محکمہ کو بھجوانے کی ہدایت کی ہے۔احکامات نہ ماننے کی صورت میں متعلقہ افسران کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔محکمہ تعلیم کے اس فیصلے پر بہت سے سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ افسروں اور اساتذہ کی کارکردگی جانچنے کا کیا پیمانہ ہوگا۔ معاشرے کے دیگر تمام شعبوں کی طرح محکمہ تعلیم میں بھی اچھے اور برے افسران اور اساتذہ موجود ہیں سزا کے ساتھ جزا کا نظام بھی ہونا چاہئے۔ خراب کارکردگی پر پری میچور ریٹائرمنٹ کے ساتھ اچھی کارکردگی پر ترقی یا انعام و اکرام کی جزا بھی ہونی چاہئے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ جن افسروں اور اہلکاروں کی کارکردگی انتہائی غیر تسلی بخش رہی ہے۔ بیس سالوں میں ان سے محکمانہ طور پر باز پرس کیوں نہیں کی گئی۔ قومی خزانے کا نقصان اور بچوں کاتعلیمی مستقبل غیر محفوظ بنانے والوں کو جبری ریٹائرمنٹ سے بڑھ کر بھی سزا دی جانی چاہئے۔ سزاؤں کا یہ نظام نافذ کرنے سے پہلے اس بات کا تعین ہونا چاہئے کہ کتنے افسروں اور اساتذہ کاچناؤ ان کی محنت اور قابلیت  کی بنیاد پر ہوا ہے۔قومی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم کا محکمہ حکمرانوں کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہا۔ جو لوگ کسی بھی شعبے میں فٹ نہیں ہوتے انہیں تدریس کے شعبے میں کھپایا جاتا رہا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کا قول ہے کہ اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ کوئی شخص کسی شعبے میں میلان نہ رکھنے کے باوجود ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا رہے۔ یہی حال ہمارے محکمہ تعلیم کا بھی ہے۔ اس شعبے میں کچھ انتہائی قابل لوگ بھی ہیں تاہم ان کی تعداد انگلیوں میں گنی جاسکتی ہے۔ امریکہ، سوئزرلینڈ، برطانیہ، فرانس اور دیگر ترقیافتہ ملکوں میں سینئر اور قابل ترین اساتذہ کو پرائمری ٹیچر مقرر کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں معاملہ اسکے برعکس ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارا تعلیمی معیار مسلسل گرتا جارہا ہے۔ موجودہ حکومت نے پہلی بار تعلیم کو نہ صرف اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے بلکہ اس کیلئے خاطر خواہ وسائل بھی مختص کئے جارہے ہیں اور خواندگی کی شرح بڑھانے کے ساتھ تعلیم کا معیار بہتر بنانے کی بھی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن گذشتہ آٹھ سالوں کی کوششوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہ آسکا۔ حکومت نے تمام اساتذہ کیلئے این ٹی ایس پاس کرنے کی شرط مقرر کی تھی مگر پھر مصلحت کوشی کا شکار ہوکر وہ فیصلہ واپس لے لیاگیا۔ سکولوں کی مانیٹرنگ، بائیو میٹرک حاضری کا نظام وضع کرنا، تبادلوں کے لئے محکمہ تعلیم اور وزارت تعلیم کے دفاتر کی یاترا پر پابندی اور نئی تقرریوں میں میرٹ پالیسی پر عمل درآمد قابل تحسین اقدامات ہیں۔ اصلاح کی ان کوششوں کے ساتھ محکمے میں موجود کالی بھیڑوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے تاکہ اصلاحات کے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکیں۔