دخل در معقولات

 لاہورسے خبر آئی ہے کہ میوہسپتال میں سکیورٹی گارڈ نے ڈاکٹر کی غیر موجودگی میں 80سالہ مریضہ کا آپریشن کیا۔ہسپتال ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ شام کوخاتون کو پھوڑے کے علاج کے لئے سرجیکل ایمرجنسی میں لایا گیا۔لواحقین کا کہنا ہے کہ غلط آپریشن کی وجہ سے خون بند نہ ہوسکامریضہ کو مرہم پٹی کرکے گھر بھجوا دیا گیامذکورہ سکیورٹی گارڈ خود کو ڈاکٹر ظاہر کرکے 2روز تک گھر میں مریضہ کی مرہم پٹی بھی کرتا رہا، خون بند نہ ہونے سے مریضہ کی حالت بگڑ گئی۔اسے دوبارہ ہسپتال لایا گیا ہسپتال کے ایم ایس کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے جعلی ڈاکٹر کوپولیس کے حوالے کردیاہے، آپریشن تھیٹر میں ڈیوٹی پر مامور ملازم کو بھی معطل کر دیا گیا۔ واقعے کی تحقیقات کے لئے انکوائری کمیٹی قائم کردی گئی لوگ ڈاکٹر کو اس کی پیشہ ورانہ مہارت کی اجرت دیتے ہیں۔ اسی مہارت کی کمی کے باعث ہی بے چارے سکیورٹی گارڈ کولینے کے دینے پڑ گئے۔ اگربہ فرض محال آپریشن کامیاب ہوتا۔ تو سکیورٹی گارڈ کو انعام و اکرام سے نواز ا جاتا۔گارڈ کی نیک نیتی بھی شک و شبے سے بالاتر ہے۔ اس نے اپنے ادارے کی ساکھ بچانے اور مریضہ کو تکلیف سے نجات دلانے کی نیت سے آپریشن کا فیصلہ کیاہوگا۔ ایم ایس کو چاہئے تھا کہ سکیورٹی گارڈ کے خلاف کاروائی سے پہلے غیر حاضر ڈاکٹروں کی خبر لیتے۔ سکیورٹی گارڈنے اپنا کام چھوڑ کر ڈاکٹری شروع کرکے کوئی انوکھا کام نہیں کیا۔ بلکہ یہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔ ہمارے لوگوں کو اپنی ذمہ داری چھوڑ کر دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑانے کی عادت ہے‘ایسے ماحول میں اگر سکیورٹی گارڈ نے چوکیداری چھوڑ کر ڈاکٹری شروع کی تو اس میں کیا قباحت ہے۔ہمارے دیہات میں آج بھی ویٹرنری اسسٹنٹ، ایل ایچ وی اور وارڈ اردلی کو ڈاکٹر کہا جاتا ہے اور وہ لوگوں کا باقاعدہ علاج بھی کرتے ہیں۔ ماضی قریب تک سرکاری ہسپتالوں میں دانتوں کے ڈاکٹر نہیں ہوتے تھے۔ لوگ دیسی عطائیوں سے ہی دانت نکلواتے تھے۔ جس کے لئے بجلی کے کام میں استعمال ہونے والا زنبور استعمال کیا جاتا تھا۔ دو افراد مریض کو مضبوطی سے پکڑتے تھے اور ماہر دندان متاثرہ دانت کو زنبور کے شکنجے میں لاکر پوری طاقت سے کھینچتا تھااس کام میں مریض کا زیادہ خون بہہ جانے سے موت واقع ہونے کا احتمال بھی رہتا تھا۔ مگر دانت کا درد ہوتا شدید ہے اور اس میں مبتلا انسان درد سے نجات کے لئے موت کا سامنا کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتا۔ آگے بڑھنا اور ترقی کرناہر ذی ہوش انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے۔میوہسپتال کے گارڈ کی ڈاکٹروں اور طبی عملے کے ساتھ سلام دعا بھی ہوگی۔ اس نے دو چار بار آپریشن تھیٹر جاکر ڈاکٹروں کو کام کرتے بھی دیکھا ہوگااس تجربے کو اس نے بروئے کار لانے کی کوشش کی۔ وطن عزیز کے ہر شہر میں ایسے درجنوں ڈاکٹر موجود ہیں جو کبھی میڈیکل کالج کے سامنے سے بھی نہیں گزرے ہوں گے۔ مگر انہوں نے کلینک کھول رکھے ہیں اور برسوں سے انسانی جانوں سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ عرف عام میں ان لوگوں کو عطائی کہا جاتا ہے ہر سال ان کے خلاف گرینڈ آپریشن بھی ہوتے ہیں وہ پکڑے بھی جاتے ہیں مگرچند دن بعد چھوٹ کر پھر سے اپنا دھندہ شروع کرتے ہیں۔ سزایافتہ سکیورٹی گارڈ کے ساتھ اظہارہمدردی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم تمام سکیورٹی گارڈز کو اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر ڈاکٹری کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ قوم میں پروان چڑھنے والی اس غیر صحت مندانہ روایت کو ختم کرنے کے لئے حکمرانوں، سیاست دانوں، اعلیٰ افسروں اور سرکاری اہلکاروں کو اپنا رویہ پہلے درست کرنا اور اپنے کام سے کام رکھنا ہوگا۔ بصورت دیگر دوسروں کے کام میں بے جا مداخلت اور دخل در معقولات و غیر معقولات کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔