ڈیرہ اسماعیل خان:وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہاہے کہ ریلیف اور بحالی کیلئے کھربوں روپے درکار ہیں،بارشوں کی وجہ سے سیلاب کے نقصانات سے بچاؤ کیلئے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کرنا ہوگی۔دیر پا منصوبے بنانے ہوں گے۔
متاثرین کی امداد شفاف طریقے سے ان تک پہنچائیں گے،اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، متاثرین صبر سے کام لیں،آخری فرد اور گھر کی آبادکاری تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
بدھ کو وزیراعظم شہباز شریف سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جاری بحالی اور امدادی کاموں کا جائزہ لینے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچنے، شہباز شریف نے ڈیرہ اسمٰعیل خان کے سیلاب سے متاثرہ سگو پل کادورہ کیا۔
اس موقع پروزیراعطم کو ٹریفک کی بحالی اور دیگر امدادی سرگرمیوں پر بریفنگ دی گئی۔وزیر اعظم کوبتایا گیا کہ سڑکوں اور پلوں کی بحالی کے لئے این ایچ اے نے دن رات کام کیا۔
سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے تمام ادارے مل کرکام کررہے ہیں۔ اس موقع پر مولانا فضل الرحمن، وزیرمواصلات مولانا اسعدمحمود، انجینئر امیر مقام بھی موجود تھے۔
وزیر اعظم نے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے پائیدار نظام کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ سیلاب کے بعد ریلیف اور بحالی کی سرگرمیوں کیلئے“ٹریلینز”درکار ہیں۔
وزیر اعظم محمد شہبازشریف نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی وتعمیر نو کے لیے بڑے پیمانے پروسائل درکار ہوں گے، تاہم متاثرین کو ہر ممکنہ وسائل فراہم کریں گے، ٹانک میں 100 گھروں پر مشتمل بستی کا 2 ہفتے بعد افتتاح کریں گے، گھروں کی تعمیر کے لیے نقد رقم دینے یا گھر تعمیر کرکے دینے پر غور کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بارشوں کی وجہ سے سیلاب کے نقصانات سے بچاؤ کے لئے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کرنا ہوگی، دیر پا منصوبے بنانے ہوں گے، متاثرین کی امداد شفاف طریقے سے ان تک پہنچائیں گے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں ایک بار پھر مصیبت کی اس گھڑی میں صورتحال کے جائزے کیلئے آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں، گزشتہ مرتبہ ٹانک اور ڈیرہ آیا تھاتو اس وقت یہ علاقے حالیہ بارشوں کی تباہی سے پہلے کے ریلے میں مشکل سے نکل رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اپنیرفقا کے ساتھ جا کر متاثرین کوتسلی دی تھی کہ اس وقت مشکل وقت اور قدرتی آفت ہے لیکن اللہ کی مدد سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں، ادارے اور افواج پاکستان مل کر پسند ناپسند اور سیاست سے بالاتر ہو کر علاقے کی خدمت کے لئے کام کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ مولانا فضل الرحمن، اسعد محمود اور امیرمقام سمیت صوبائی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنی بساط کے مطابق بھر پور کام کیا، افواج پاکستان کاشکریہ اداکرتے ہیں جنہوں نے ہر جگہ متاثرین کو مدد فراہم کی اور اپنی استعداد سے بڑھ کردن رات انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قمبر شہدادکوٹ اور سندھ کے دیگرمتاثرہ علاقوں میں تاحدنگاہ پانی کھڑا ہے، بلوچستان، خیبر پختونخوا میں تباہی ہوئی ہے، سوات میں دریا کے اندر تعمیرات سنگین غلطی تھی، وہاں قطعی طور پر تعمیرات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی، وہاں سیلابی ریلے نے تباہی کی۔
انہوں نے کہاکہ لوئر کوہستان میں 5 افراد 5 گھنٹے تک تندوتیز لہروں میں کھڑے رہے اور اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انہوں نے کہاکہ غذر میں گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ ایک خاندان کے 8 افراد لقمہ اجل بن گئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ایک بچی اور اس کے خاندان کامعذورفرد زندہ بچے،ان کو یقین دلایا کہ ان کی ہر ممکن مدد کریں گے،وہاں کے مقامی لوگوں سے بھی امید ہے کہ ان کا خیال رکھیں گے۔
انہوں نے کہاکہ اس سے پہلے پاکستان میں اس سیزیادہ تباہی نہیں دیکھی۔ گزشتہ حکومت نے وسائل کی بربادی کی۔ ہم نے سیاست کو ایک طرف رکھ کر خدمت کرنی ہے، وفاق میں حکومت مخلوط ہے،اس حکومت نے پہلے28 ارب روپے متاثرہ گھرانوں کے لئے مختص کئے۔ 25 ہزار روپے فی خاندان دیئے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ان میں 20ارب روپے شفاف طریقے بی آئی ایس پی کے ذریعے تقسیم کئے جا چکے ہیں،سیلاب کی تباہ کاریوں کے بڑھنے سے حقائق کی بنیاد پر تخمینہ اب 70 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہ مالی بوجھ وفاقی حکومت برداشت کررہی ہے باقی اخراجات اس کے علاوہ ہیں، اس کے علاوہ جاں بحق ہونے والوں کے لیے 10،10 لاکھ فی کس دے رہے ہیں، سندھ اور دیگر متاثرہ علاقوں میں لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، وفاقی حکومت چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں متاثرین کے لئے یہ وسائل فراہم کررہی ہے، صوبے بھی اپنے وسائل سے دے رہے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ انہیں بھی مزید وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے، وزیراعظم نے کہا کہ این ڈی ایم کے ذریعے 2 لاکھ خیمے چاروں صوبوں کو نقصانات کے حجم کے مطابق فراہم کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ این ایچ اے، وزیر اورسیکرٹری مواصلات متاثرہ شاہراہوں کی بحالی کے لئے دن رات کام کررہے ہیں، ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ وفاق یا صوبہ کس کاکام ہے، ہم اپنا کام کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں پانی کھڑا ہے وہاں وبائی امراض کے چیلنج کاسامنا ہے، یہاں صحت کی سہولیات کی فراہمی اور متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کے لئے کھربوں روپے درکار ہوں گے۔
شہباز شریف نے کہا کہ یہ بہت بڑاچیلنج ہے، دوست ممالک کی جانب سے امداد کی فراہمی پر ان کے شکر گزار ہیں، متاثرین کو ملنے والی امداد کی ایک ایک پائی شفاف طریقے سے ان تک پہنچائیں گے۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ حق دار کو ہر صورت اس کا حق دلایاجائے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ٹانک میں ایک مخیر شخص کے مالی تعاون سے 2 کمروں پر مشتمل 100 گھروں کا 2 ہفتے بعد افتتاح کریں گے، اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو اس کو تمام متاثرہ علاقوں تک بڑھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب اور بارشوں سے لاکھوں گھرتباہ ہوئے ہیں، ان کو معاوضہ اداکرنا ہے، تاہم اس کیلئے یہ سوال اٹھ رہاہے کہ گھروں کی تعمیر کے لئے نقد رقم دی جائے یا گھر بناکردیئے جائیں، اس میں کچھ خدشات بھی ہیں، کچھ آسانیاں اور کچھ مشکلات بھی ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ سیلاب بارش کی وجہ سے ہے۔ مون سون میں سیلاب دریاؤں میں طغیانی کی وجہ سے آتا ہے، اس کے لئے مستقل منصوبہ بندی کرناہوگی۔ چھوٹے ڈیم اور دیر پامنصوبے بناناہوں گے۔ اس صورتحال نے ہر چیزکو تباہ کیاہے، اس سے غربت سمیت لمبے عرصے تک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ تمام صوبائی حکومتوں، اداروں،افواج پاکستان،فلاحی تنظیموں کے شکر گزار ہیں جو متاثرین کے لئے کام کررہی ہیں۔انہوں نے متاثرین سے کہ وہ صبر سے کام لیں،آخری فرد اور گھر کی آبادکاری تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ہر جگہ جارہا ہوں، متاثرین کو ہر حال میں وسائل فراہم کریں گے، ہمیں صبر، اتحاد اور اتفاق سے کام لینا ہوگا، انصاف اور شفافیت ہمارا مطمح نظر ہو گا۔
اس موقع پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے کہا کہ ہم وزیراعظم کا شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ اس مشکل وقت میں ہماری دادرسی کی اور خود یہاں تشریف لائے، این ایچ اے اور دیگر اداروں نے دن رات کام کیا جس پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ فوجی جوانوں نے مقامی افراد اور امدادی تنظیموں کے ساتھ مل کر سیلاب میں پھنسے افراد کو نکالا، ہم اس کی دل سے قدر کرتے ہیں، متاثرین کے لئے کھانا اور امداد پہنچائیں۔
انہوں نے کہاکہ سیلاب سے بچاؤ کے لیے مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی اور اقدمات کی ضرورت ہے، اگر ایسا نہیں کی اگیا تو تباہ کاریاں جاری رہیں گی۔
انہوں نے کہا کہ مفتی محمود ہسپتال میں پانی چڑھ گیا، آبادی کو بچانے کے لئے بڑی شاہراہیں کاٹی گئیں، این ایچ اے نے فوری کارروائی کرکے شاہراہیں بچائیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ بلوچستان میں لوگ ابھی تک پانی میں پھنسے ہیں، سوات، دیر، کوہستان میں بہت تباہ کاریاں ہوئی ہیں۔ نقصانات کی تما م تفصیل وزیراعظم کی گوش گزار کی ہے تاکہ دل کھول کر متاثرین کی مدد کی جا سکے۔