الیکشن،نتائج کو ن مانے گا؟

اس وقت جو سب سے بڑا سوال پوری قوم کے سامنے ہے اور جس کاجواب اس وقت کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس نہیں وہ یہی ہے کہ اگر ملک میں قبل ازوقت یا اپنی مقررہ مدت میعاد کے مطابق الیکشن ہوبھی جائیں تو اس کے نتائج کون تسلیم کرے گا بداعتمادی اورنفرتوں کی جو خلیج حائل ہوچکی ہے اس کے بعد تو ہارنے والی جماعت یا جماعتوں نے دھاندلی کاالزام عائد کرکے پہلے روز سے ہی سڑکوں پر نکلناہے اس کے بعد تو سوال یہی پیداہوتاہے کہ اربوں روپے الیکشن پرخرچ کرنے کافائد ہ کیاہوگا اس وقت ملکی سیاسی فضا ء دوواضح حصوں میں تقسیم دکھائی دے رہی ہے۔ پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتیں باربار قبل ازوقت الیکشن کامطالبہ کرتے ہوئے اسی کو تمام مسائل کا حل قراردیتی ہیں اس مقصد کے حصول کیلئے پی ٹی آئی نے پہلے قومی اسمبلی سے استعفے دیئے پھر ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے اپنی دونوں حکومتیں بھی ختم کرتے ہوئے پنجاب اورخیبر پختونخوا سمبلیاں بھی تحلیل کردیں اور قبل ازوقت الیکشن کے مطالبہ میں مزید شدت لاتے ہوئے واضح کیاکہ کم سے کم دونوں صوبوں کے الیکشن میں تاخیر کسی بھی صورت قبول نہیں کی جائے گی دوسری طرف پی ڈی ایم اور اس کی ہم خیال جماعتوں کامؤقف ہے کہ الیکشن اپنے مقرر ہ وقت پرہی ہونے چاہئیں قبل ازوقت الیکشن مسائل کاحل نہیں بلکہ وسائل کاضیاع ہے پھر آخر اس مسئلہ کاحل کیاہے اگردیکھاجائے تو ملک کی تین بڑی جماعتوں کو قوم ماضی قریب میں اچھی طرح آزما چکی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت آئی لوگوں کی حالت نہ بدلی،پیپلزپارٹی کے بعد مسلم لیگ نے عنان اقتدار سنبھالا توقعات پھر بھی پوری نہ ہوسکیں، بہت سی اُمیدوں کے ساتھ پی ٹی آئی کو اقتدار میں لایا گیا مگر اُمیدوں کے چراغ جلد ہی گل ہوتے چلے گئے‘اب درجن بھر سے زائد جماعتیں برسراقتدار ہیں اور قوم کاجو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے کسی نہ کسی صورت جے یو آئی او ر اے این پی کو بھی آزمایا جاچکاہے  وزیراعظم شہباز شریف کو کم از کم یہ کریڈٹ تودیناچاہئے کہ انہوں نے کھل کر تسلیم کرلیاکہ معیشت کی موجودہ زبوں حالی کی ذمہ داری کسی ایک جماعت یا حکومت پرعائد نہیں کی جاسکتی ہم سب اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ اس وقت ملک بدترین سیاسی اور معاشی عدم استحکام
 کاشکار ہے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے میں مصروف ہیں سیاسی الزام تراشی عروج پر ہے مگر بنیاد ی مسائل کے حل کے حوالہ سے کوئی کچھ بھی نہیں بول رہا۔معیشت کی بہتری کے لئے کوئی فارمولا تجویز نہیں کیاجارہا اس جانب سے سب نے آنکھیں بندکی ہوئی ہیں کوئی یہ نہیں بتاتاکہ سیاسی اور معاشی استحکام کے لئے کیاکرناچاہئے کون سی معاشی اصلاحات لانی ضروری ہیں اور یہ معاشی اصلاحات کیسے لائی جاسکتی ہیں سوال یہ ہے کہ ان حالات میں قوم آخر کس سے اُمیدیں باندھیں اگر پی ٹی آئی یہ کہتی ہے کہ زرداری اور اور نوازشریف نے معیشت تباہ کردی تو خودپی ٹی آئی پربھی تو یہ الزام ہے کہ اس نے صوبہ کو ایک ہزار ارب روپے کامقروض کرڈالاہے۔ان حالات میں الیکشن چاہے کسی وقت بھی ہوں اگر ہوجاتے ہیں تو پہلے تو نتائج کوئی بھی تسلیم نہیں کریگا پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم سمیت تمام جماعتیں ابھی سے کہہ رہی ہیں کہ مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوششیں قبول نہیں کی جائینگی‘گویا ان کے نزدیک مخالف جماعت کی جیت مرضی کے نتائج ہونگے۔ جس کو قبول نہیں کیاجائے گا اور یوں معاملہ ایک بارپھر سڑکوں پر طے کرنیکی مہم شروع ہوجائیگی‘ان حالات میں الیکشن صرف اورصرف انتقا ل اقتدار کاکام ہی دینگے مسائل کے حل کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اورجب یہ حالات ہونگے تو جمہوریت کس طرح ڈیلیور کرسکے گی اور جب جمہوریت ہی ڈیلیور نہ کرسکے تو پھر لوگ کہاں جائیں گے شاید اب وقت آگیاہے کہ الیکشن سے قبل قومی مکالمے کی راہ ہموار کی جائے اہل دانش،مفکرین اور دانشوروں کو آگے بڑھ کر کوئی راستہ نکالناہوگا  جب تک رولز آف گیم طے نہیں ہوتیں اور مستقبل کی صورت حال کے لیے قومی مکالمہ کو ممکن نہیں 
 بنایاجاسکتاتو ایک نہیں ایک درجن انتخابات بھی صورت حال کو بہتر بنانے میں ممدثابت نہیں ہوسکتے۔اس لیے باربار یہ تکرار ضرور ی ہے کہ الیکشن ہونگے تو نتائج کو ن مانے گا؟ویسے بھی 1977کے بعد سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ جو جماعتیں بھی الیکشن ہارتی ہیں وہ دھاندلی کاالزام عائد کرتی ہیں لیکن تب اتنی برداشت تو تھی کہ نئی حکومت کو کچھ وقت دیاجاتا اور پھراس کی کمزوریوں پر گرفت کرکے اپوزیشن جماعتیں میدان میں نکلتیں۔اب تو یہ چند ماہ کاتکلف بھی ختم ہوچکاجب 2018کے انتخابات ہوئے تو اپوزیشن جماعتوں نے چوبیس گھنٹے میں ہی نتائج مسترد کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلنے کااعلان کردیا اور اب یہ روایت مستقبل میں پختہ ترہوتی چلی جائیگی توپھرسیاسی جماعتوں کو خودہی سوچناچاہئے کہ اگرجمہوری پارلیمانی نظام میں الیکشن ہی مسائل کے حل میں معاون ثابت نہ ہوسکیں بلکہ انتخابا ت کے نتیجہ میں سیاسی پیچیدگیوں میں اضافہ ہوتاچلاجائے تو پھر ووٹر کے ختم ہوتے اعتماد کوبحال کیسے رکھاجاسکے گا الیکشن سے قبل سیاسی جماعتوں کو کم از کم اس سوال کاجواب ضرور تلاش کرناچاہئے کہ نتائج آخرکون تسلیم کرے گا کیا سیاسی اکابرین اس امر کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ موجودہ حالا ت میں کہ جب ایک ا یک روپے کی ضرورت ہے اربوں روپے خرچ کرکے اگر عام انتخابات کاانعقاد ہوتابھی ہے تو تمام جماعتیں نتائج تسلیم کرکے پانچ سال تک نئے مینڈیٹ کو چیلنج نہیں کیاجائے گا پارلیمانی کے فیصلے سڑکوں پر نہیں کیے جائیں گے سیاسی اختلافات کو سیاسی عدم استحکام کاذریعہ نہیں بنایاجائے گا جب تک یہ ضمانت نہیں ملتی تو سیاسی و معاشی استحکام کاخواب بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا‘دوسرا سب سے بڑا مسئلہ سیاست میں ملکی اداروں کو گھسیٹنے کاہے یہ کھیل ماضی میں ہر جماعت کھیل چکی ہے اپنی اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لئے جس طرح سیاسی اکابرین نوجوانوں کے ذہن ریاستی اداروں کے حوالہ سے پراگندہ کرتے رہے ہیں اس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں ٹھیک ہے کہ ریاستی اداروں نے بھی ماضی میں غلطیاں کی ہونگی لیکن کیا ان کی غلطیوں میں ہر دورمیں ہمارے سیاسی اکابر مدد گار نہیں رہے ہیں؟ یہ سوال بھی نوجوان کارکنوں کے شکو ک ختم کرنے کے لئے جواب طلب ہے۔