ڈیجیٹل مردم شماری ،ناانصافی پر خاموشی کیوں؟

ایک طرف صوبہ مسلسل وفاق کی طرف سے نظر انداز چلاآرہاہے کسی بھی جماعت کی وفاقی حکومت نے خیبرپختونخواکے حقوق کے تحفظ و فراہمی کے لئے سنجیدگی کامظاہرہ نہیں کیاپیپلزپارٹی ہو مسلم لیگ ن ہویاپھرمسلم لیگ ق پی ٹی آئی ہویا پی ڈی ایم جب بھی وفاق میں یہ لوگ برسراقتدار آئے کم سے کم خیبرپختونخوا کو محروم ہی رکھاگیا دوسری طرف صوبہ کی سیاسی قیادت کی غیر سنجیدگی بھی پورے عروج پرہے اب حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کے معاملہ کو ہی دیکھ لیں بس چند دن شورو غوغا رہا اور اب ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے بجلی کی مہنگائی اپنے ساتھ اس قدر اہم ایشو کو اڑا لے گئی ویسے بھی ہماری سیاسی جماعتیں رائے عامہ بنانے کے بجائے اب رائے عامہ کے پیچھے چلنے لگی ہیں چنانچہ جب دیکھاکہ لوگوں کے غصہ کارخ مہنگی بجلی کی طرف ہے تو تما م جماعتیں بھی اس گرم تندور میں اپنی اپنی روٹیاں لگانے پہنچ گئیں اور اب کسی کو بھی یاد نہیں رہاکہ ڈیجیٹل مردم شماری کے ذریعہ صوبہ کے ساتھ جس طرح کا ڈیجیٹل گھپلا کیاگیاہے اس پر سیاسی جماعتوں کی خاموشی افسوسناک ہی قراردی جاسکتی ہے کیونکہ نئی ڈیجیٹل مردم شمار ی کے جاری نتائج نے خیبرپختونخوا کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی صوبہ کی آبادی میں چھ سال کے دوران محض 53لاکھ اضافہ دکھایاگیاہے ملک بھر میں سب سے کم شرح آبادی بھی خیبرپختونخواکی دکھائی گئی ہے نئی مردم شماری کے نتائج کے مطابق خیبر پختونخواکی آباد ی چار کرو ڑ آٹھ لاکھ پچاس ہزار ہوگئی ہے جبکہ 2017کی مردم شماری کے مطابق صوبہ کی آبادی ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ تھی 2018میں فاٹا انضمام کے ساتھ ہی وہاں کی پچاس لاکھ آبادی بھی خیبرپختونخواکاحصہ بن گئی تاہم اب اس کو ملاکر بھی صوبہ کی آبادی چار کروڑ کے لگ بھگ ظاہر کی گئی ہے نتائج کے مطابق ملک بھر میں سب سے کم شرح آبادی بھی خیبرپختونخوا کی ہے جو 2.38بنتی ہے بلوچستان کی آبادی بڑھنے کی شرح 3.2فیصد سندھ کی 2.57اور
 پنجاب کی 2.53ریکارڈ کی گئی ہے ساتھ ہی یہ زیادتی بھی کی گئی کہ نتائج جاری کئے جانے کے اگلے روز ہی مشترکہ مفادات کونسل کااجلاس طلب کیاگیا جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کو بھی تیاری کاموقع نہ مل سکا اجلاس کے موقع پر صوبائی حکومت کی طرف سے تحفظات کااظہار کیاگیا مگر وفاق نے نظر انداز کردیئے نئی مردم شماری کے تحت ہی مستقبل میں صوبہ کے لئے وفاقی محاصل سے حصہ فراہم کیاجائے گا سرکاری ذرائع کے مطابق اس صور ت میں رواں مالی سال کے دوران صوبہ کو پچاس سے ساٹھ ارب روپے کم ملنے کاخدشہ ہے جبکہ اگلے سال یہ
 خسارہ بڑھ کر 100ارب روپے ہوسکتاہے یوں دس سال بعدنئی مردم شماری تک صوبہ کو کم وبیش 800سے 1000ارب روپے کم ملنے کاخدشہ ہے پہلے مرکز کے ذمہ صوبہ کے کھربوں روپے کے بقایا جات ہیں پی ڈی ایم حکومت جاتے جاتے بھی صوبہ کو کچھ نہ دسے سکی محض طفل تسلیوںپر ہی صوبہ کو ٹرخایا جاتارہا اور اس معاملہ میں پی ڈی ایم اور اس کی حلیف جماعتیں یقینا صوبہ کے لوگوں کو جواب دہ ہیں اب جبکہ ڈیجیٹل مردم شماری کے ذریعہ صوبہ کے ساتھ ایک اورناانصافی ہونے جارہی ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام جماعتیں مل کراس حوالہ سے صدائے احتجا ج بلندکریں مگر صورتحال یہ ہے کہ صوبہ کی اکثر جماعتوں کی طر ف سے معاملہ پر سنجیدگی کامظاہر ہ نہیں کیاجارہااگرچہ پی ٹی آئی کی کورکمیٹی نے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کااعلان کیاہے تاہم صوبہ کی سب سے بڑی قوم پرست جماعت اے این پی اور سب سے بڑی دینی سیاسی جماعت جے یو آئی نے اس معاملہ پر لب سی رکھے ہیں مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی والے بھی خاموش ہیں لے دے جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی نے ہی اس پر لب کشائی کی ہے کیوڈبلیو پی کے چیئر مین آفتا ب احمد خان شیرپاﺅ نے تو صوبائی حکومت کی طلب کردہ کل جماعتی کانفرنس میں بھی مسئلہ اٹھایا تھا جبکہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے بارہا اس پر سینٹ میں بات کی ہے تاہم باقی جماعتوں کی خاموشی افسوسناک ہے اب جبکہ ڈیجیٹل مردم شماری منظور کرانے والی پی ڈی ایم کی حکومت رخصت ہوچکی ہے اور قوم اس وقت مہنگی بجلی کے بلوں تلے دبی ہوئی ہے اور ساتھ ہی بھرپور اشتعال کے ساتھ احتجاج بھی ہورہاہے تو سیاسی جماعتیں بھی نمبر بنانے کی غرض سے احتجاج کاحصہ بنتی جارہی ہیں اوریوں ڈیجیٹل مردم شماری کے نام پر صوبہ کے ساتھ ہونے والی بدترین زیادتی کو پس پشت ڈالا جارہاہے حالانکہ اس معاملہ کو اس وقت تک زندہ رکھنے کی ضرورت ہے جب تک کہ صوبہ کے تحفظا ت کاعملی طورپر ازالہ نہیں ہوجاتا نگران صوبائی اور صوبہ کی سیاسی قیادت اس حوالہ سے جس پالیسی پر عمل پیرا ہیں اس کے نتائج ان کے ساتھ ساتھ صوبہ کے لئے بھی چندا ں مثبت ثابت نہیں ہونگے بجلی بلوں کے خلاف احتجاج کے ساتھ ساتھ ترجیحا ت میں ڈیجیٹل مردم شماری میں ہونے والی زیادتی ونا انصافی کے خلاف احتجاج کو بھی شامل کئے رکھنا ضروری ہے کیونکہ اگر خاموشی اختیار رکھی گئی تو جس طر ح مرکز صوبہ کے پن بجلی کے خالص منافع ،این ایف سی اورقبائلی اضلاع کے حوالہ سے کھربوں روپے دبائے بیٹھا ہے اسی طرح مستقبل میں مزید کھربوں کے وسائل سے بھی صوبہ کو محروم کردیاجائے گا اور اس کے بعد بیروزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت صوبہ کو جس طرح انتہاپسندی اور دہشتگردی کی طرف لے جائے گی اس کے تصور سے ہی رونگٹھے کھڑے ہونے چاہئیں ۔