خواتین کی اعلیٰ تعلیم کے خلاف سازش

ایک وقت ایسا بھی تھاکہ خیبرپختونخوا میں خواتین کیلئے ا علیٰ تعلیم میں جگہ بنانا انتہائی مشکل تھا نام نہاد روایات کی وجہ سے بچیوں کو سکول یا پھرکالج سے آگے نہیں پڑھایاجاتاتھا جامعات اور پیشہ ورانہ اداروں میں طالبات کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہواکرتی تھی پھرجب عسکریت پسندی کی لہر چلی تو پہلا نشانہ ہی بچیوں کے تعلیمی ادارے بنے اور سینکڑوں کی تعداد میں لڑکیوں کے سکول بم دھماکوں کے ذریعہ اڑادیئے گئے جس کے بعد رفتہ رفتہ حالات بہتر ہوناشروع ہوئے لڑکیوں کی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے فروغ کیلئے مہمات چلائی گئیں والدین کو باور کرایا گیاکہ جامعات میں ان کی بچیاں بالکل گھر کی طرح محفوظ رہیں گی‘ اس وقت صورتحال بہت دلچسپ ہوچکی ہے‘ ایک رپورٹ کے مطابق محض نوماہ کے دوران ڈگریاں اور میڈلز لینے والوں میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے کہیں زیادہ رہی‘ خیبر پختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی نے 9ماہ میں 17جامعات کے کانووکیشنز میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کرکے مجموعی طور پر 6ہزار 336طلباء و طالبات میں سرٹیفیکیٹ اور 855طلبہ میں گولڈ میڈلز تقسیم کئے ٗ سرٹیفیکٹ حاصل کرنیوالوں میں 3052طلباء ٗ 3284 طالبات جبکہ گولڈ میڈلز لینے والوں میں 366طلباء اور 589طالبات شامل ہیں ٗ تفصیلات کے مطابق گورنر حاجی غلام علی نے یکم دسمبر 2022ء کو اقراء نیشنل یونیورسٹی کے کانووکیشن میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی جس میں 360طلبہ کو سرٹیفیکیٹ 32کو گولڈ میڈلز پہنائے گورنر نے 6دسمبر 2022ء کو سٹی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ٗ 8دسمبر کو زرعی یونیورسٹی پشاور ٗ 17دسمبر کو نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز پشاور کیمپس ٗ 30دسمبر کو یونیورسٹی آف پشاور ٗ 17جنوری کو خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور ٗ 31جنوری کو ویمن یونیورسٹی صوابی ٗ 14فروری کو ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ ٗ 15فروری کو ایبٹ آباد یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی ٗ24فروری کو ویمن یونیورسٹی مردان ٗ 25فروری کو کوہاٹ یونیورسٹی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ٗ 27فروری کو یونیورسٹی آف ملاکنڈ ٗ 6مئی کو جناح کالج فار ویمن ٗ 10جون کو باچا خان میڈیکل کالج مردان ٗ 26جون کو یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی نوشہرہ اور 7اگست کو یونیورسٹی آف پشاور کے کانووکیشن میں شرکت کی یہ سب کچھ اس صوبہ میں ہوا جہاں کسی زمانے میں لڑکیوں کی تعلیم معیوب سمجھی جاتی تھی بدقسمتی سے جامعات میں ہراسانی کے واقعات میں اضافہ اور خاص طورپر ویڈیوز کے پھیلائے جانے سے اب ایک بار پھروالدین متذبذ ب ہوتے جارہے ہیں پاکستان کی تعلیمی جامعات میں آئے روز طالبات کی طرف سے جنسی ہراسگی کے کیسز سامنے آرہے ہیں، جہاں یہ بڑھتے کیسز لمحہ فکریہ ہیں وہیں اس کی وجوہات بھی جاننا ضروری ہیں کہ آگاہی کے سبب یہ کیسز اب زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں یا پھر واقعی اس طرح کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے دختر فاؤنڈیشن کی 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق انہیں 20,741 سے زیادہ شکایات موصول ہوئیں، جس میں حیران کن بات یہ تھی کہ 16981 شکایات مختلف یونیورسٹیوں کی طالبات کی طرف سے درج کرائی گئیں جس کا مطلب ہے کہ 82 فیصد یونیورسٹیوں سے موصول ہونیوالی شکایات پروفیسرز اور لیکچرارز کی جانب سے طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے سے متعلق تھیں کچھ حالیہ کیسز کی بات کی جائے تو21 جولائی کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ہونیوالے واقع نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ غازی یونیورسٹی، ڈیرہ غازی خان میں 2 یونیورسٹی پروفیسرز کو ہراسانی کے کیسز میں معطل کیا گیا۔سوات کی ایک یونیورسٹی میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس میں طالبات اور خواتین اساتذہ نے رجسٹرار کے خلاف ہراسانی کی شکایت کی جس پر گورنر خیبر پختونخوا نے معاملہ صوبائی محتسب کو انکوائری کے لئے بھیج دیا۔ یاد رہے کہ صوبائی محتسب کے خط میں ان طالبات اور خاتون ٹیچر کے موبائل نمبر موجود ہیں‘2023 میں ہی سندھ کی ایک یونیورسٹی میں بھی طالبات کو ہراساں کرنے کا واقعہ سامنے آیا۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہراسمنٹ پالیسی  ہائر ایجوکیشن کمیشن آرڈیننس، 2002 کے تحت ایچ ای سی کو دیئے گئے اختیارات کے مطابق بنائی گئی ہے اور یہ ملک کے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں پر لاگو ہوتی ہے، چاہے وہ سرکاری ہوں یا نجی۔ایچ ای سی ان تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں کیخلاف اس پالیسی کی خلاف ورزی کرنے پر کارروائی کرسکتا ہے‘یہ پالیسی پاکستان کے ورک پلیس ہراسمنٹ ایکٹ 2010 کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اس پالیسی کے تحت کسی بھی قسم کی زبانی یا تحریری مواصلت یا جنسی نوعیت کا جسمانی برتاؤ یا توہین آمیز رویہ شامل ہے‘ اس طرح کا کوئی بھی رویہ کسی کی جانب سے بھی ناقابلِ قبول ہے‘ پالیسی کا مقصد جنسی ہراسانی کو روکنا ہے اور جہاں ضروری ہوایسی شکایات پر فوری، منصفانہ، انصاف کیساتھ اور تمام متعلقہ فریقوں کی رازداری رکھتے ہوئے کارروائی کرنا ہے مگر یہ پالیسیاں صرف نام تک ہی ہوتی ہیں، جن پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا‘ اول تو خواتین اپنی عزت کو بچانے کیلئے شکایات درج نہیں کرواتی اور جو درج کروا دیتی ہیں ان کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس طرح کے واقعات سے تب ہی چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے جب منصفانہ طور پر فیصلہ کیا جائے اور اس طرح کے لیکچرار کو یونیورسٹی سے نکال دیا جائے تاکہ ایسی سوچ رکھنے والے باقی تمام افراد کو ڈر ہو کہ ان کیخلاف ایکشن لیا جائیگا‘ ابھی ہمارا مسئلہ ہی یہ ہے کہ شکایت کنندہ کو نظر انداز کردیا جاتا ہے  مگر جب تک شدید کارروائیاں نہیں ہونگی یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔بدقسمتی سے دوسال قبل  ملکی یونیورسٹیز کے کیمپسوں میں جنسی ہراسانی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کیلئے حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن  کو میکانزم طے کرنے کی ہدایت کی؛اس میں تفصیلی رہنما خطوط شامل ہوں گے جو حقائق جاننے کیلئے قائم کمیٹی نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں بے حرمتی کا ایک کیس سامنے آنے کے بعد مرتب کئے تھے‘ایسے جرائم کی روم تھام کیلئے جامعہ انتظامیہ، پولیس اور سول انتظامیہ کے درمیان قریبی تعاون کی ضرورت پر زور دیا گیا‘مذکورہ رپورٹ تعلیم پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں پیش کی گئی جس نے اس کی توثیق کی‘ کمیٹی نے ایچ ای سی کیلئے بھی قواعد و ضوابط کی سفارش کی‘سرکاری جامعات کو چاہئے کہ وہ نازیبا، مخرب اخلاق واقعات روکنے کیلئے ہیلپ لائن قائم کریں؛ضلعی انتظامیہ اور ریسکیوکو بھی اطلاع دی جائے؛ہر ماہ ضلعی انتظامیہ، پولیس اور جامعات کے ذمہ داران کا رابطہ اجلاس ہونا چاہئے‘جامعات کیلئے کونسلنگ سیل کی بھی سفارش کی گئی‘ اسی دوران  آئس اور دیگر نشہ آور اشیاء  کے استعمال کے  واقعات منظر عام پر آئے‘کوئی تحقیق ہوئی نہ سد باب کی کوشش کی گئی‘لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ان جرائم میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہو تارہا ہے‘آئے روز ذرائع ابلاغ کے ذریعے منظر عام پر آنیوالے تعلیمی اداروں کے ایسے  واقعات نے معاشرے میں خوف طاری کر دیا ہے‘ ہر شریف النفس آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر اس کا انجام کیا ہوگا؟ عزت دار لوگ اپنی بچیوں کو ایسے اداروں میں بھیجنے سے خوفزدہ ہو رہے ہیں اس سلسلہ میں سب سے بڑے مجرم تو وہ ہیں جو ویڈیو زبناتے اورپھیلاتے ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ تو دہشتگردی کے قانون کے تحت نمٹنا چاہئے‘اگر والدین ایک بار مایوس اور بچیاں خوفزدہ ہوگئیں تو پھر ہم ا س میدان میں اتنا پیچھے چلے جائیں گے کہ واپسی میں کئی سال لگ جائیں گے اس لئے ابھی سے اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے امید ہے کہ موجودہ گورنرحاجی غلام علی اس معاملہ میں وقت ضائع کئے بغیر عملی اقدامات کے ذریعہ نہ صرف بہتری لانے کی طرف گامزن ہونگے بلکہ ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں بھی کھڑا کروانے میں پوری قوت صرف کریں گے۔