نگرانوں کی رخصتی 

خیبرپختونخواکے نگرانوں کی رخصتی صوبہ اور ملک کی سیاسی تاریخ کاانوکھا اور سبق آموز با ب بن چکاہے‘ وطن عزیز میں نگران حکومتوں کاتصور عملی طورپر 1990ءکے انتخابات کے موقع میں سامنے آیا تھا اس سے قبل مکمل خاموشی تھی ذوالفقارعلی بھٹونے جب 1977ءمیں انتخابات کے انعقاد کافیصلہ کیا تو انکی حکومت برقراررہی اور اسی کی نگرانی میں الیکشن ہوئے تاہم بوجوہ یہ تجربہ بری طرح ناکام رہا اور بدترین دھاندلی کے الزامات لگائے گئے جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی این اے نے زبردست ا حتجاجی تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں بھٹو کو دوبارہ الیکشن کامطالبہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوناپڑا لیکن انہوںنے اپوزیشن کو ایک نکتہ سے پیچھے ہٹانے میں کامیابی بھی حاصل کی کہ الیکشن کےلئے بھٹو کو استعفیٰ دیناہوگا گویا اپوزیشن نے نگران حکومت کے قیام کانکتہ واپس لے لیا تھا تاہم بدقسمتی سے ان انتخابات کے انعقاد کی نوبت ہی نہ آسکی جس کے بعد جنرل ضیاءکی طویل آمریت میں ایک نیا تجربہ کرتے ہوئے غیرجماعتی بنیادوں پر الیکشن کروائے گئے اس کےلئے بھی کوئی نگران حکومت قائم نہ ہوئی جنرل ضیاءکی نگرانی میں ہی الیکشن ہوئے جب 29مئی 1988کو جنرل ضیاءنے اپنے ہی نامزد کردہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو رخصت کرتے ہوئے تمام اسمبلیاں بھی توڑ دیں تو انہوںنے ایک عارضی حکومت قائم کرتے ہوئے اسلم خان خٹک کو وزیرا عظم کے بجائے سینئر وفاقی وزیر نامزد کردیا اور پھر الیکشن اسی حکومت کی نگرانی میں ہوئے جس میںپاکستان پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی تاہم جب بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیاگیاتو پہلی بار نگران حکومت قائم کرتے ہوئے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر غلا م مصطفی جتوئی کو نگران وزیر اعظم مقرر کیاگیا یہ ایک طرح سے نامناسب فیصلہ تھاکہ کیونکہ جتوئی صاحب بے نظیر حکومت میں اپوزیشن لیڈر تھے اورپھر الیکشن میں پی پی پی کے مد مقال حصہ لینے والے اتحاد کے سربر اہ بھی تھے یوں پہلا نگران وزیراعظم ہی متنازعہ بن گیا تاہم اس وقت پی پی پی اسی طرح تنہا تھی جس طرح آج کل پی ٹی آئی اکیلی کھڑی ہے چنانچہ نگران حکومت کومشکلات کاسامنا نہیں کرناپڑا‘ اٹھارہ اپریل 1993کو جب اس وقت کے صدر غلام اسحق خان نے نوازشریف حکومت برطرف کی تو میر بلخ شیر مزاری کو نگران وزیر اعظم مقرر کیاگیا جسکی تقرری کی مسلم لیگ ن نے کھل کر مخالفت کی تاہم ان کی تقرری ایک عدالتی فیصلے کے تحت غیر قانونی قرار پائی جب 1993کے انتخابات کو موقع آیا تو امریکا سے ایک پاکستانی معین قریشی کو درآمد کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم مقرر کیاگیا اس وقت بھی یہی جواز پیش کیاگیاکہ مشکل معاشی فیصلے کرنے کےلئے ان کاتقرر کیاگیاہے 1997میں الیکشن کےلئے جو نگران حکومت قائم ہوئی اسکے وزیر اعظم ملک معراج خالد کو نامزد کیاگیا جو انتہائی دیانتدار اورشریف النفس انسان تھے پیپلز پارٹی کے بانی رہنماﺅں میں شامل تھے اور پھر ناراض ہوکر الگ ہوگئے تھے ان کی تقرری کی پیپلز پارٹی نے کھل کر مخالفت کی 2008کے انتخابات کیلئے جو نگران حکومت قائم ہوئی تھی اس میںوزارت عظمیٰ کامنصب محمد میاں سومروکے حوالے کیاگیا یاد رہے کہ اس وقت تک نگران وزیرا عظم کی تقرری کےلئے کوئی طریقہ کاریا آئینی راستہ ہی موجودنہ تھا اس کےلئے مقتدر قوتوں کی آشیرباد ہی اہم کردار ادا کیاکرتی تھی جب اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور ہوئی تو اس میں پہلی بار نگران وزیر اعظم اور نگران وزرائے اعلیٰ کی نامزدگیوں کاطریقہ کار طے کرتے ہوئے اسے آئین کاحصہ بنایاگیا جسکے بعد 2013ءمیں الیکشن ہورہے تھے تو اس کےلئے اسی طریقہ کار کے مطابق نگران وزیر اعظم کاتقرر کیاگیا اور میر ہزار خان کھوسو نگران وزیر اعظم بنے ‘ 2018کے الیکشن کےلئے جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک نگران وزیر اعظم بنے تاہم جب 2023ءکے الیکشن کےلئے نگران حکومت کی تشکیل کا مرحلہ سرپر آیا تو قومی اسمبلی میں ایک ایسااپوزیشن لیڈر موجودتھا جس کی ذات پر کئی قسم کے اعتراضات موجودتھے کیونکہ عدالتی احکامات کے باوجود سپیکر نے پی ٹی آئی کے اراکین کو قومی اسمبلی میں واپس نہیں آنے دیا تاکہ اپوزیشن لیڈر کاعہدہ پی ٹی آئی کو نہ مل سکے اس لئے پی ٹی آئی نے نگران وزیر اعظم کےلئے مشاورتی عمل پر کافی اعتراضات بھی کئے تاہم اب انوارالحق کاکڑ نگران وزیر اعظم کاحلف اٹھا چکے ہیں تاہم حیرت انگیز طورپر جب نگران وزیر اعظم کی نامزدگی کےلئے مشاورتی عمل شروع ہوا اسی وقت ہماری نگران صوبائی کابینہ کی رخصتی پرمشاورت جاری تھی اور ملک کی تاریخ میں پہلی بار پوری کی پوری نگران صوبائی کابینہ نے استعفیٰ دےدیا خیبرپختونخوا میں جتنی بھی نگران حکومتیں قائم ہوئیں ان میں سب سے متنازعہ موجودہ نگران حکومت رہی جسکی کابینہ اب رخصت ہوچکی ہے اس کابینہ کے نام جب سامنے آئے تو سنجیدہ حلقوںنے اسی وقت حیرت کااظہار کیا ظاہر ہے کہ ایسے ایسے نام شامل تھے کہ جن کی سیاسی وفاداریاں روز روشن کی طرح عیاں تھیں ایسے محسوس ہورہاتھاکہ صوبہ میں ساڑھے نوسال پی ٹی آئی کے دورحکومت کے بعد چن چن کر مخالف جماعتوں کے رہنماﺅں پر مشتمل صوبائی حکومت بنائی گئی ہے یہ نگران حکومت کم اور سیاسی حکومت زیاد ہ تھی‘ نگران وزیر اعلیٰ کاتقرر اس وقت کے وزیر اعلیٰ محمود خان اور اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کی مشاورت اور اتفاق رائے سے ہوا تھا یہی وجہ ہے کہ جب نگران حکومت نے پی ٹی آئی کے خلاف کاروائیاں تیز کیں تو پی ٹی آئی کی طرف سے نگران وزیر اعلیٰ کے نام ایک تفصیلی خط میں اس بات کاگلہ بھی کیاگیا کہ ان کی تقرری میں ہماری ہاں بھی شامل تھی مگر ہمیں ہی نشانہ بنایاجارہاہے نگران وزیر اعلیٰ اعظم خان کے نام خط میں کہاگیاکہ آپ 18 جنوری 2023 کو صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد سے کے پی کے نگراں وزیر اعلیٰ ہیںآپ کا واحد کام صوبہ میں 90 دنوں کے اندر آزادانہ اور منصفانہ عام انتخابات کا انعقاد تھا‘مگر آئینی مدت میں انتخابات نہیں ہوئے ہیں، اس دوران ہماری جماعت کو کچلنے کےلئے ہر حربہ اختیار کیاگیا حالانکہ آپ کانام سامنے آیا تو عمران خان نے منظوری دینے میں ذرہ برابر بھی دیر نہیں لگائی‘ اٹھائیس رکنی کابینہ میں سوائے دوتین کے باقی سب سیاسی نامزدگیاں تھیں نگران حکومت مسلسل ہمارے خلاف استعمال ہوتی رہی ہمارے کارکنوں کو گرفتار کیاجارہاہے‘ صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے، ایک پاکستانی کی حیثیت سے، ایک باوقار ماضی کے ساتھ ایک سرکاری ملازم کی حیثیت سے، اور ایک پشتون کی حیثیت سے آپ کو یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم آزاد، منصفانہ، شفاف اور جمہوری انتخابی عمل سے بہت دور ہیں آپ کی حکومت نے پی ٹی آئی کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے، آپ نے مکمل خاموشی اختیار کرنےکا انتخاب کیا ہے‘ انتہائی احترام کیساتھ یاد رکھیں کہ تاریخ ایسے حالات میں کبھی خاموش نہیں رہتی خط میں ان سے ملاقات کےلئے وقت مانگا گیا تھا نگران وزیر اعلیٰ نے خط پر مکمل خاموشی اختیارکئے رکھی البتہ الیکشن کمیشن کی طرف سے نگران وزراءکے کردار پر سوالات اٹھاتے ہوئے انکی فراغت کےلئے جوخط لکھاگیا اس پر عملدرآمد کرتے ہوئے نگران وزیر اعلیٰ نے تمام وزراءسے استعفے لئے‘اب نئی کابینہ کےلئے مشاورتی عمل تیز کردیاہے دیکھنایہ ہے کہ نئی کابینہ کس حد تک غیرسیاسی ثابت ہوتی ہے ؟