ہنرمندی سے گریز کیوں؟

لگتاہے کہ سیاست ہی ہمارا اوڑھنا بچھونا بن چکی ہے‘ ہم مکمل طورپر سیاست زدہ قوم بن چکے ہیں اسی لئے تو ہمارے بہت سے معاملات سیاست کی نذر ہورہے ہیں اور بہت سے مسائل حل کرنے کے بجائے ان پرسیاست کی جارہی ہے سیاسی جماعتیں بھی اس حوالہ سے قوم کو بند گلی میں سے نکالنے میں ناکام رہی ہیں‘ سیاسی قیادت آج تک قوم کو اس بات پر قائل تک نہیں کرسکی کہ ڈگریوں کے بجائے ہنرمندی کی راہ اختیار کریں نہ ہی حکومتوں نے نصاب میں تعمیری تبدیلی پر توجہ دی یہی وجہ ہے کہ ہم پڑھے لکھے بیروزگارہی پیدا کررہے ہیں ا س حوالہ سے گذشتہ روز ایک تحریک سوشل میڈیا پر نظروں سے گذری تو مجبورہوکراسی کی روشنی میں ایک بارپھرہنر مندی کافلسفہ جھاڑنے کو د ل کررہاہے آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں بی ای، بی کام ، ایم کام ، بی بی اے ، ایم بی اے، انجینئرنگ کے سینکڑوں شعبہ جات میں بے تحاشہ ڈگریاں اور اس کے علاوہ چار چار سال تک کلاس رومز میں جی پی اے کے لئے خوار ہوتے طلباءو طالبات کیا کر رہے ہیں؟ آپ یقین کریں ہم صرف دھرتی پر ” ڈگری یافتہ “ انسانوں کے بوجھ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ تمام ڈگری یافتہ نوجوان ملک کو ایک روپے تک کی پروڈکٹ دینے کے قابل نہیں ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو اور ڈگری کا حاصل محض ایک معصوم سی نوکری ہے اور بس۔ٹیوٹا ، ڈاہٹسو ، ڈاٹسن ، ہینو ، ہونڈا ،سوزوکی ، کاواساکی ، لیکسس ، مزدا ، مٹسوبشی ، نسان ، اسوزو اور یاماہا یہ تمام برانڈز جاپان کے ہیں جبکہ شیورلیٹ ، ہونڈائی اور ڈائیوو جنوبی کوریا بناتا ہے۔ آپ اندازہ کریں اس کے بعد دنیا میں آٹو موبائلز رہ کیا جاتی ہیں ؟ آئی ٹی اور الیکٹرونکس مارکیٹ کا حال یہ ہے کہ سونی سے لے کر کینن کیمرے تک سب کچھ جاپان کے پاس سے آتا ہے۔ ایل جی اور سام سنگ جنوبی کوریا سپلائی کرتا ہے۔2014ء میں سام سنگ کا ریونیو 305 بلین ڈالرز تھا۔ ” ایسر “ لیپ ٹاپ تائیوان بنا کر بھیجتا ہے۔ جبکہ ویتنام جیسا ملک بھی ” ویتنام ہیلی کاپٹرز کارپوریشن “ کے نام سے اپنے ہیلی کاپٹرز اور جہاز بنا رہا ہے۔ محض ہوا ، دھوپ اور پانی رکھنے والا سنگاپور ساری دنیا کی 
آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے اور کیلیفورنیا میں تعمیر ہونے والا اسپتال بھی چین سے اپنے آلات منگوا رہا ہے دنیا کے تعلیمی نظاموں میں پہلے نمبر پر فن لینڈ، دوسرے نمبر پر جاپان اور تیسرے نمبر پر جنوبی کوریا ہے‘ انہوں نے اپنی نئی نسل کو ”ڈگریوں“ کے پیچھے بھگانے کے بجائے انہیں ” ٹیکنیکل “ کرنا شروع کردیا ہے‘ آپ کو سب سے زیادہ ایلیمنٹری اسکولز ان ہی ممالک میں نظر آئینگے۔وہ اپنے بچوں کا وقت کلاس رومز میں بورڈز کے سامنے ضائع کرنے کے بجائے حقائق کی دنیا میں لے جاتے ہیں‘ ایک بہت بڑا ووکیشنل انسٹیٹیوٹ اس وقت سنگاپور میں ہے اور وہاں بچوں کا صرف بیس فیصد وقت کلاس میں 
گذرتا ہے باقی اسی فیصد وقت بچے اپنے اپنے شعبوں میں آٹو موبائلز اور آئی ٹی کی چیزوں سے کھیلتے گذارتے ہیں۔دوسری طرف آپ ہمارے تعلیمی نظام اور ہمارے بچوں کا حال ملاحظہ کریںاورخودسوچیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ہم اس قدر ”وژنری“ ہیں کہ ہم لیپ ٹاپ اسکیم پر ہر سال 200 ارب روپے خرچ کررہے ہیں لیکن لیپ ٹاپ کی انڈسٹری لگانے کو تیار نہیں ہیں۔ آپ ہمارے” وژنری پن “ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پوری قوم سی پیک کے انتظار میں صرف اس لئے ہے کہ ہمیں چائنا سے گوادر تک جاتے 2000 کلو میٹر کے راستوں میں ڈھابے کے ہوٹل اور پنکچر کی دوکانیں کھولنے کو مل جائیںگی اور ہم ٹول ٹیکس لے لے کر بل گیٹس بن جائیںگے‘اوپر سے لے کر نیچے تک کوئی بھی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔فلپائن کی مثال لے لیں‘ فلپائن نے پورے 
ملک میں” ہوٹل مینجمنٹ اینڈ ہاسپٹلٹی “ کے شعبے کو ترقی دی ہے۔اپنے نوجوانوں کو ڈپلومہ کورسز کروائے ہیں۔ اور دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ ڈیمانڈ فلپائن کے سیلز مینز / گرلز ، ویٹرز اور ویٹرسسز کی ہے۔ حتیٰ کہ ہمارا دشمن بھارت تک ان تمام شعبوں میں بہت آگے جاچکا ہے‘ آئی ٹی انڈسٹری میں سب سے زیادہ نوجوان ساری دنیا میں بھارت سے جاتے ہیں۔جبکہ آپ کو دنیا کے تقریباً ہر ملک میں بڑی تعداد میں بھارتی لڑکے لڑکیاں سیلز مینز ، گرلز ، ویٹرز اور ویٹرسسز نظر آتے ہیں۔ پروفیشنل ہونے کی وجہ سے ان کی تنخواہیں بھی پاکستانیوں کے مقابلے میں دس دس گنا زیادہ ہوتی ہیں یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوسکاہے کہ ان تمام ممالک میں ہنرمندی کی قدر کی گئی اس کی اہمیت کو محسو س کیاگیا اسی لئے انہوںنے ڈگری سے زیادہ اہمیت ہنرمندی کو دی چینی کہاوت ہے کہ ” اگر تم کسی کی مدد کرنا چاہتے ہو تو اس کو مچھلی دینے کے بجائے مچھلی پکڑنا سکھا دو “ چینیوں کو یہ بات سمجھ آگئی۔ کاش ہمیں بھی آجائے چین نے بہت پہلے اپنے سکولوں کو ایک طرح کی تربیتی ورکشاپوں کی شکل دے دی تھی جہاں بچے ڈگری کے حصول کے ساتھ ساتھ ہنر سیکھنے میں بھی مصروف رہتے بچے سکول سے نکلتے تو صرف ان کے ہاتھ میں صرف تعلیمی سند نہیں ہوتی بلکہ ہنر کے زیور سے بھی مالا مال ہوتا ہے اورہنرمندی کایہ سفر چین کو آج ترقی کی معراج پرلے گیاہے ۔ حضرت علی ؓنے فرمایا تھا کہ ” ہنر مند آدمی کبھی بھوکا نہیں رہتا “۔خدارا ! ملک میں ” ڈگری زدہ “ لوگوں کی تعداد بڑھانے کے بجائے ہنر مند پیدا کیجئے۔ دنیا کے اتنے بڑے ” ہیومن ریسورس “ کی اس طرح بے قدری کا جو انجام ہونا تھا وہ ہمارے سامنے ہے ‘پاکستان میں نوجوانوں کی شرح آبادی سب سے زیادہ ہے مگرہم ان کو مثبت سرگرمیوں اورتعمیر مستقبل کی طرف لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں ‘کاش کہ ہم ہر چیز کو سیاست کی نظر سے دیکھنے کی روش سے دستبردار ہوجائیں ہنرمندی کی راہ اختیار کریں نوکر ی کے بجائے ہنرمندی کو ترجیح دیں تو ترقی کے سفر میں ہمیں بھی کو ئی آگے بڑھنے سے نہیں روک سکے گا ۔