انوارالحق کاکڑ 

مہربان عزیز میجر عامر کے حوالے سے ہمارے سینئر اور محترم صاحبان ہارون رشید اوررؤف کلاسرا فرماتے ہیں کہ اندر کی خبر چاہئے ہو یا پھر صورتحال سے باخبر ی ہر دوصورتوں میں میجر عامر کے گھر کا رخ کرناپڑے گا جہاں پر ان کی میزبانی میں سجنے والی محافل میں ہر طرح کے محرمان راز درون میخانہ موجود ہوتے ہیں ان سے ہم جیسے بے خبر لوگ بہت کچھ حاصل اورسیکھ پاتے ہیں سو ہم بھی خوش قسمتی سے اکثر وبیشتر ایسی محافل میں حاضری لگانے کاموقع ڈھونڈ لیتے ہیں میجر صاحب کے فارم ہاؤ س نیسا پور صوابی میں کتنی ہی اس قسم کی محافل سجتی رہتی ہیں جن میں خبروں کو تجزیوں کے گھڑوں کو بھرنے کیلئے معلومات کے خزانے دستیاب ہوتے ہیں ایسی ہی ایک محفل میں ایک روز ایک نئے چہرے سے ملاقات ہوئی جو دلیل اور شائستگی کے ساتھ محفل میں جگہ بنائے ہوئے تھے جس وقت ہماری ملاقات ہوئی تب یہ وہم وگمان میں بھی نہیں تھاکہ شریک محفل یہ سنجید ہ طبیعت انسان اس ملک کا وزیر اعظم بھی بنے گا ان کے ساتھ مہربان عزیزمیجر عامر کے فارم ہاؤس نیسا پور صوابی میں متعدد نشستیں ہوئی اسلام آباد میں بھی میجر صاحب کی رہائش گاہ پر سجی محافل میں بھی ان کی گفتگو سننے کاموقع ملاان کاتعارف کراتے ہوئے ہمیں یاد ہے کہ میجر عامر نے کہاتھاکہ یہ بلوچستان میں پاکستان کی توانا آواز اور انتہائی پڑھے لکھے شخص ہیں جس کے جواب میں ان کاکہناتھاکہ میجرعامر تو میرے بڑے بھائی ہیں اور ہم ان سے ہی سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں انوارالحق کاکڑ جب بھی ان محافل میں بات کرتے تو بلوچستان نہیں بلکہ پاکستان کی ترجمانی کرتے ظاہرہے کہ میجرعامر کی دوستی پاکستان کے ایسے ہی سپوتوں سے ہواکرتی ہے جب ملک میں نگران وزارت عظمیٰ کیلئے دوڑ لگی ہوئی تھی تو اس میں دو طرح کے لوگ شریک تھے کچھ وہ صاحبان تھے جو اقتدار کے بغیر سانس نہیں لے سکتے اپنے اپنے نام سامنے لانے کیلئے جو مشقت ان لوگوں نے اُٹھائی وہ ناقابل بیان اورانتہائی قابل رحم ہے دوسری طرح کے لوگ وہ تھے جو شاید اس دوڑ میں اپنی مرضی سے شامل نہیں تھے مگر سنجیدہ امیدوار بن چکے تھے سیاستدانوں نے بھی اس بار میڈیا اور جغادری صحافیوں اور اینکروں کیساتھ ٹھیک ٹھا ک ہاتھ کیا کچھ نام ذرائع سے ظاہر کرکے ان بیچاروں سے پروگرام پہ پروگرام اور ٹویٹس پرٹویٹس کر اتے چلے گئے اور ان پر اپنی محافل میں خوب خوب قہقہے لگائے چنانچہ چند ناموں کے گرد پوری کہانی کاتانا بانا بنا گیا اور جب متفقہ نام سامنے آیاتوسب کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور کھسیانی بلی کی طرح سب ہی کھمبا نوچنے لگے بہرحال بلوچستان سے نام سامنے آیاحیرت انگیز طورپر تمام جماعتوں کیساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف نے بھی خاموش حمایت کی جس سے یہ ظاہرہوتاہے کہ وہ کس حد تک غیرجانبدار اور قابل قبول شخص ہیں ان حالات میں کہ وطن عزیز کو بیرونی سے کہیں زیادہ اندرونی چیلنجز درپیش ہیں ان کا انتخاب صائب فیصلہ دکھائی دیتاہے ویسے بھی بلوچستان میں پاکستان زندہ باد کانعرہ بلند کرنا بہت ہی حوصلے کی بات ہے۔ا ن کے انتخاب پر صرف بی اے پی مینگل کے سربرا ہ اختر مینگل کی طرف سے ہی مخالفانہ آواز بلند ہوئی ہے جس نے ملکی سیاست کی تقسیم بھی واضح کردی ہے اور ثابت کردیاہے کہ اختر مینگل کہاں کھڑے ہیں نواز شریف کے نام خط میں اخترمینگل نے کہاہے کہ ان کی نامزدگی سے ہم پر سیاست کے درواز ے بند کردیئے گئے اب ضروری ہے کہ اختر مینگل وضاحت کریں کہ کہ ان پر سیاست کے دروازے کیسے بند ہوئے جب ایک بلوچ میرہزارخان کھوسہ وزیراعظم بنے تھے تب تو ان پرسیاست کے دروازے بند نہیں ہوئے تھے بدقسمتی سے بلوچوں میں بھی بعض ایسے بدنصیب موجود ہیں جنہیں پاکستان اور بلوچستان کے پختونوں سے چھڑ اور سخت تعصب ہے کیاانوارالحق کاکڑ کاقصوریہ ہے کہ وہ پرو پاکستانی اور بلوچستان کے پختون ہیں اختر مینگل نے باپ پارٹی کے اس وزیر اعلیٰ کی حمایت کی تھی جن کے بکسے سے صرف ساڑھے چارسو ووٹ برآمد ہوئے تھے اورانہوں نے اسی پارٹی کے صادق سنجرانی کی چیئر مین سینٹ کے عہدے کیلئے حمایت بھی کی تھی اس وقت ان پر سیاست کے دروازے بند نہیں ہوئے تو پھر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کاکڑ کی وزارت عظمیٰ نے ان پرسیاست کے دروازے کیسے بند کردیئے‘ حالانکہ کاکڑ کی نامزدگی سے بلوچستان جیسے سب سے بڑے اور حساس ترین صوبہ میں پرو پاکستانی نوجوانوں کو تقویت ملے گی یہ بلوچستان کے ناراض نوجوانوں کیلئے بھی واضح پیغام ہے کہ پاکستان سے محبت کرنے والوں کیلئے پاکستان کاسینہ کس قدر کشاد ہ ہے انوارالحق کاکڑ کے ساتھ اگر سابق صوبائی وزیر داخلہ سرفرازبگٹی کاذکر نہ کیاجائے تو زیادتی ہوگی پاکستان کے حوالہ سے ان کی قربانیاں بھی کسی سے کم نہیں انوارالحق کاکڑ اور سرفرازبگٹی کو بلوچستان میں پاکستان کے اوپننگ بیٹسمین کہنادرست ہوگا کہ دونوں ہی پاکستان زندہ باد کی پہچان رکھتے ہیں کاکڑ کے آنے سے بلوچستان کویہ اعزاز بھی حاصل ہوگیاہے کہ اس وقت وزیراعظم،چیئرمین سینٹ کے ساتھ ساتھ نامزد چیف جسٹس پاکستان کاتعلق بھی اسی صوبہ سے ہے اس سے قبل بلوچستا ن کے پاس بیک وقت اس قدراہم عہدے اتنی تعداد میں کبھی بھی نہیں رہے نامزد چیف جسٹس کے خلاف ماضی میں بھرپور محاذ کھولاگیا مگر ان کے پیچھے عوامی قوت تھی جس نے یہ ثابت کردکھایا کہ جس نے چھوٹے صوبوں میں پاکستان سے محبت کے بیج بوئے اس کو عزت و احترام ہی ملا‘انوارالحق کاکڑ کی صورت میں ملک کے تیسرے پختون وزیراعظم نے حلف ا ٹھالیاہے اس سے قبل نگران وزیر اعظم ناصر الملک اور عمران خان بھی پختون تھے تاہم کاکڑ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پہلے پختون وزیر اعظم ہیں انہوں نے تعلیم بھی خیبرپختونخوا میں حاصل کی اور ان کاسسرال بھی خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں سے تعلق رکھتاہے وہ باشعور اورذہین انسان ہیں گفتگوکا سلیقہ اوراپنے پاس دلائل کے انبار بھی رکھتے ہیں اسٹیبلشمنٹ سے بہت اچھے تعلقات رکھتے ہیں اسی وجہ سے اس کے مزاج کو بخوبی سمجھتے ہیں انہیں بہت ہی بہترین انداز میں اپنے مؤقف کے اظہار کاملکہ حاصل ہے مختلف ادوار میں بلوچستان حکومتوں کے ترجمان رہے اب خدا نے انہیں ملک بھر کی ترجمانی کاموقع دیاہے تو امید ہے کہ وہ اپنے انتخاب سے انصاف کریں گے پاکستان کے بدخواہ موجودہ حالات میں سرگرم ہیں اور اس وجہ سے مشکلات بھی پیداکررہے ہیں ان حالات میں کاکڑ کی طرح کے لوگوں کی زیادہ ضرورت تھی جو پاکستان کامقدمہ مؤثر انداز میں عالمی فورمز پر پیش کرسکتے ہیں کیونکہ وہ مرعوبیت کاشکار نہیں ان کی ایک اورخوبی یہ ہے کہ مخالف نظریہ والوں کے ساتھ بھی بہت سلیقہ اور طریقہ سے بات کرتے ہیں اوران کو بھی پورا احترام دیتے ہیں اسی وجہ سے امید ہے کہ موجودہ حالات میں وہ اندرونی خلفشار میں کمی لانے میں کامیاب رہیں گے لاء اینڈ آرڈر کے حوالہ سے سیکورٹی سے متعلق لٹریچر کے ساتھ ساتھ کتب کے مطالعہ کے شوقین ہیں اور اس موضوع پر کافی علم اورمہارت رکھتے ہیں امید ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے سبب اس مسئلہ کے حل کیلئے بھی مؤثر کردارادا کرسکیں گے۔