پاکستان ایران گیس پائپ لائن، روشن امکانات

ایسے حالات میں کہ جب دنیا کساد بازاری اور بے روزگاری کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہے اور اکثر ممالک پر معاشی دباؤ ہے، چین کی ثالثی سے ایران اور سعودی عرب میں سفارتی تعلقات کی بحالی اہم پیش رفت ہے جس سے خطے میں معاشی حالات بہتر ہوں گے اور وہ منصوبے اب پروان چڑھ سکیں گے جن پر بوجوہ کام نہیں ہوسکا تھا۔ عالمی امور پر نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق نئی صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر کام میں تیزی لانی چاہئے۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پرجہاں امریکہ کی طرف سے ایران پر لگائے جانے والی پابندیوں کے باعث کام رکا رہا وہاں سعودی عرب کی رضا مندی بھی ضروری تھی کیونکہ ریاض اسلام آباد کا قریبی سٹریٹیجک پارٹنر ہے۔تاہم اب صورتحال بدل گئی ہے اور اب اسلام آباد کو اپنی توانائی کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے اس پر توجہ دینی چاہئے۔اس حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان کی 
توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں ایران سب سے بہتر اور آسان ذریعہ ہے لیکن ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر اب تک کوتاہی برتی گئی۔تاہم کچھ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین کی طرف سے عالمی منظر نامے پر اس قدر نمایاں ہونے سے مغرب اور امریکہ ہر گز خوش نہیں ہوں گے اور ایک طرح سے سرد جنگ میں اضافہ ہوگا۔ایسے حالات میں ہمیں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ ایران سے گیس پائپ لائن پر تیزی سے عمل درآمدکا راستہ آسان نہیں ہوگا۔ مغرب اور امریکہ پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے مالی تعاون بھی درکار ہے۔ جو حیلوں بہانوں سے پاکستان کو قرضہ جاری نہیں کررہا۔ اور گزشتہ روز حکومت کی طرف سے یہ عندیہ ملا ہے کہ وہ امریکہ سے اس معاملے میں مدد طلب کریگی۔ اگر یہی حقیقت ہے تو پھر امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان ایران اور دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ جڑ کر معاشی طور پر خوشحال ہواور آئی ایم ایف کے چنگل سے نکل جائے۔ایک اور اہم پیش رفت یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے پاکستان میں سرکاری سطح پر موصول ہونے والے تحائف کا گذشتہ 21 سال کا ریکارڈ جاری کیا ہے جس میں 2002 سے 2023 تک صدور،وزرائے اعظم، سپیکر و ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینٹ،بیوروکریٹس اور صحافیوں سمیت اعلی عہدوں پر فائز افراد کو ملنے والے تحفوں کی ایک تفصیلی فہرست دی گئی ہے۔ریکارڈ کے مطابق توشہ خانہ میں قیمتی گاڑیاں، گھڑیاں، لیپ ٹاپ، آئی فون، بیڈ شیٹس اور اشیائے خورد و نوش جیسے 
پائن ایپل، کافی، سری لنکن چائے اور عربی قہوہ کپ بھی بطور تحفہ وصول کیے گئے۔اگرچہ فہرست میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کون سی چیز کس ملک سے آئی تھی مگر یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ کس عہدیدار نے کتنے پیسوں کے عوض اس چیز کو توشہ خانہ سے حاصل کیا اور اس کی اصل مالیت کیاتھی۔توشہ خانے کے 21سال کے ریکارڈ کے مطابق حکومت پاکستان کے عہدیداروں کو سب سے زیادہ تحائف 2005میں ملے جن کی مجموعی تعداد 475تھی۔ جبکہ 2006اور 2007 کے  دوران مجموعی طور پر 381تحائف وصول کیے گئے۔ 2004 میں پاکستان کے توشہ خانہ میں 350تحائف آئے۔ ا ب ان میں سے کس نے کیا حاصل کیا اور کتنے میں حاصل کیا اس سے قطع نظر یہ مثبت پیش رفت ہے کہ اس معاملے میں شفافیت کا اپنایا گیا ہے۔ اس طرح کی شفافیت اگر تمام شعبہ ہائے زندگی میں اپنائی جائے تو اس کے ڈھیر سارے فوائد سامنے آئیں گے اوریہ دیکھا جائے تو وقت کی ضرورت بھی ہے۔