جاوید اختر کا نیا وار

لاہور میں منعقدہ ساتویں فیض احمد فیسٹیول میں بھارتی شاعر، نغمہ نگاراور فلم ساز جاوید اختر نے  ہرزہ سرائی کرتے ہوئے پاکستان پرممبئی شہر میں ہونے والے حملوں کے الزامات لگائے۔ان کا کہنا تھا کہ ممبئی پر حملہ کرنے والے مصر یا ناروے سے نہیں آئے تھے۔انہوں نے شکوہ کیا کہ پاکستان میں آج تک لتا منگیشکر یا محمد رفیع کی یاد میں کوئی پروگرام منعقد نہیں کیا گیا۔بھارت میں نصرت فتح علی خان اور مہدی حسن جیسے گلوکاروں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے پروگرامات منعقد کیے جاتے ہیں۔بھارتی اداکارہ کنگنا رناوٹ نے جاوید اختر کی تعریف کرتے ہوئے انہیں بہادر قرار دیا۔جاوید اختر نے اسی پر بس نہیں کیا۔ حال ہی میں اپنی کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ اُردو زبان ہندوستان کی زبان ہے۔اُردو کا تعلق پاکستان یا مصر سے نہیں بلکہ ہندوستان سے ہے یہ زبان کہیں باہر سے نہیں آئی، یہ ہماری اپنی زبان ہے، یہ ہندوستان سے باہر نہیں بولی جاتی۔پاکستان تو خود تقسیم کے بعد وجود میں آیا ہے، پہلے یہ صرف ہندوستان کا حصہ تھا اس لیے اُردو زبان وہاں کی نہیں ہے۔ ساتھ ہی مزید ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ  پاکستان کشمیر کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے تو کیا ہم اس کی بات مان لیں؟ اُردو پر بھی پاکستان کا دعوی ٰ کشمیر پر دعوے کے مترادف ہے۔یہ باتیں مرار جی ڈیسائی، من موہن سنگھ، جسونت سنگھ اور نریندر مودی بھی کرتے رہے ہیں۔موہن داس کرم چند گاندھی بھی کہا کرتے تھے کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ہندو ہے اگر وہ کوئی دوسرا مذہب اختیار کرتا ہے تو اس کے لئے ہندوستان کی سرزمین میں کوئی جگہ نہیں بنتی۔ وہ جہاں سے آیا ہے وہیں واپس چلا جائے۔ ہم ان ہندو رہنماؤں کی باتوں کو سیاسی بیانات قرار دے رہے تھے لیکن شبانہ اعظمی اور اس کے شوہر جاوید اختر کی ان کڑوی کسیلی باتوں سے لگتا ہے کہ  یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جو تقسیم ہند کے زمانے سے فروغ پارہا ہے۔اس مائنڈ سیٹ کی ترویج کو ہر بھارتی حکومت نے قومی فریضہ سمجھ کر آگے بڑھایا۔ دوسری جانب ہم اُردو کو اپنا قومی زبان قرار دیتے ہیں لیکن حکومتی سطح پر اس کے فروغ کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔سپریم کورٹ نے سرکاری سطح پر قومی زبان کے نفاذ کے احکامات جاری کئے تھے مگر ان پر عمل درآمد کی حکومتوں نے ضرورت محسوس نہیں کی۔صرف سرکاری سکولوں کی حد تک اُردو پڑھائی جاتی ہے۔قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کی تمام کاروائی کا ریکارڈ انگریزی میں ہوتا ہے۔تمام سرکاری اعلانات انگریزی میں ہوتے ہیں۔کسی بڑی تقریب میں اُردو میں بات کرنے میں شرم محسوس کی جاتی ہے۔ جہاں ”قومی“کا لفظ آتا ہے اسے اپنی مرضی کا لبادہ اوڑھانا ہم اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اُردو  کے ساتھ اگر ہم قومی زبان کے شایان شان سلوک کرتے تو جاوید اختر جیسے لوگوں کو اس طرح کی ہرزہ سرائی کی جرات نہ ہوئی ہوتی۔