گلوبل وارمنگ، وقت ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے

اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیاہے کہ گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لئے انسانوں کے ہاتھ سے وقت نکلتا جا رہا ہے۔سینکڑوں سائنس دانوں کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں کہا گیا کہ دنیا ایک ایسے مقام پر پہنچنے کے قریب ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں لیکن اس تباہی سے ابھی بھی بچا جا سکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق دنیا بھرمیں گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی شروعات کی ضرورت ہے ورنہ کرہ ارض کا درجہ حرارت 1.5 ڈگری سیلسیس کی حد سے تجاوز کر جائے گا۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ درجہ حرارت میں ایک ڈگری کا اضافہ زمین پر انتہائی نوعیت کے وقوعات کا سبب بنے گا۔ان تباہ کاریوں میں گلیشیئروں کے پگھلنے کے سبب سطح سمندر میں اضافہ ہوگا جس کے نتیجے میں زراعت، جنگلات، ماہی گیری، توانائی اور سیاحت کو شدید معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔کیونکہ ناموافق موسمی حالات کے باعث معاشی مسائل سر اٹھاتے ہیں اور بہت سے ممالک میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ اسی موسمیاتی تبدیلی اور کاربن کے اخرا ج میں اضافے کا نتیجہ ہے کہ دنیا کے بہت سے ایسے اہم شہر جو سمندروں  کے کنارے آباد ہیں صفحہ ہستی سے مٹنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔انڈونیشیا نے اپنے درخلافے کو دو ہزار کلومیٹر دور علاقے میں اسی وجہ سے منتقل کرنے کی تیاری شروع کی ہے کیونکہ جکارتہ کے آس پاس سمندر کی سطح میں اضافہ ہورہاہے اور یہ اہم ترین شہر سمندر برد ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔اقوامِ متحدہ کی جانب سے موسمیاتی تغیّرپر بنائے جانے والے بین الحکومتی پینل کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ متوسط سطح پر گرین ہاؤس گیس کے اخراج کے سبب 2081 سے 2100 کے درمیان زمین پر 2.7 ڈگری سیلسیس اضافہ متوقع ہے۔لیکن اگر یہ اخراج انتہائی کم ہوتا ہے تو یہ درجہ حرارت 1.4 ڈگری جبکہ اگر اخراج انتہائی زیادہ ہوتا ہے تو 4.4 ڈگری تک بڑھ سکتا ہے۔ان نتائج سے نبردآزما ہونے کے لئے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 2030 تک 48 فی صد، 2035 تک 65 فی صد، 2040 تک 80 فی صد اور 2050 تک 99 فی صد کٹوتی کرنا ہوگی۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس سلسلے میں ترقی یافتہ ممالک پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ کاربن ڈائی اکسائیڈ کے اخراج میں بڑا حصہ ان ممالک کا ہے اور بد قسمتی سے ان کی اس پالیسی کا سراسر نقصان ترقی پذیر ممالک کو ہوتا ہے، گزشتہ مون سون میں پاکستان کو جن سیلابوں کا سامنا رہا وہ اسی موسمیاتی تبدیلی کا شاخسانہ تھا اور موسمیاتی تبدیلی و درجہ حرارت میں اضافے کی بڑی وجہ کاربن ڈائی اکسائیڈ کا اخراج ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی اور درجہ حرارت میں اضافے کے حوالے سے شعور اور آگہی میں اضافہ ہوا ہے۔