بڑھتی سیاست کو نگل سکتی ہے 

الیکشن کی آمدآمدہے مگر ملک میں حالات کسی اورطرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں پہلے تو ایک ہی دن الیکشن کرانے کے معاملہ پر اتفاق نہیں ہورہا جس سے سیاسی کشید گی میں کمی کی کامقصد بھی حاصل نہیں ہوپارہا دوسری طرف امن کے دشمنوں نے بھی اپنے وارتیز کردیئے ہیں گذشتہ کچھ عرصہ کے دوران  ملک کے مختلف حصوں خاص طورپر ہمارے صوبہ میں ہونے والے افسوسناک واقعا ت کی وجہ سے پوری قوم عالم سوگواری میں ہے طویل عرصہ بعد بدامنی کا جن بوتل سے نکلتا دکھائی دے رہاہے اور اگر دیکھا جائے تو منظم منصوبہ بندی کے تحت پورے ملک کو نشانہ بنایا جارہاہے پشاورسے لے کرکراچی وگوادر تک سرزمین پاکستان کو لہورنگ کیاجارہاہے گویا یہ تاثردیاجارہاہے کہ ہم جب چاہیں جہاں چاہیں وار کرسکتے ہیں اس قسم کے واقعات کے ذریعے عالمی سطح پر وطن عزیز کے تشخص کونقصان پہنچانے کیساتھ ساتھ قوم کے مورال کو بھی گرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس امرمیں کوئی شک نہیں کہ دہشتگردی کیخلاف پوری قوم متحد ہے تاہم اس سلسلے میں پھونک پھونک کرقد م رکھنے کی ضرورت ہے ہمیں موجودہ صورتحال کو ملکی حالات کیساتھ ساتھ خطے کی مجموعی صورتحال کے تناظر میں دیکھنا ہوگا‘موجودہ حالات سے نمٹنے کیلئے کوئی ایک اقدام ہرگز کافی نہیں۔ یہ برسوں کی خرابیوں کی وجہ سے پیدا شدہ حالات ہیں جو ایک اقدام سے اور فوری طور پر ہرگز درست نہیں ہو سکتے‘ ان کی بہتری کیلئے لمبا عرصہ درکار ہے۔ اس دوران ہمیں سوشل اکنامک ایشوز کو دیکھنا ہوگا خوف کی فضا ختم کرنا ہوگی  سیاسی و عسکری قیادت کو اپنا اپنا کردار ادا کرناہوگا گویا ایک کمپری ہنسیوو سٹرٹیجی بنانی ہوگی‘ بدقسمتی سے نیشنل ایکشن پلان غیر فعال ہوچکا ہے ماضی قریب میں مرکز اور صوبہ اس حوالے سے ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرا تے رہے ہیں پلان پر کسی کی توجہ ہی مرکوز نہیں رہی  یہ بجا کہ پاک فوج نے کما حقہ کردار ادا کیا ہے مگر جب تک سیاسی اقدامات نہیں ہونگے‘ مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت جن اقدامات کی کمی محسوس کی جا رہی ہے انہیں دور کیا جائے‘ دیکھنا ہوگا کہ کس کا کتنا کردار اور کون سے مزید اقدامات ہونے چاہئیں‘ دہشت گردی کی کسی بھی شکل کی تائید وحمایت انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے بدقسمتی سے کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جو دہشتگردی کو اسلام کے ساتھ جوڑنے
 کے لئے سارازور صر ف کررہے ہیں حا لانکہ اسلام دین امن ہے وہ کسی بے گناہ کا خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام کے نام پر بے گناہوں کا خون بہانا ایک ایسا جرم ہے جو کسی بھی صورت قابل معافی نہیں لہٰذا دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کی کوششوں کی مذمت ضروری ہے  قیام امن اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اولین ذمہ داریاں ہیں یہ امر خوش آئند ہے کہ عوام خوفزدہ ہونے والے نہیں اورحقیقت بھی یہی ہے کہ اب عوامی تعاون زیادہ سے زیادہ حاصل کرکے دہشت گردی کی کمر توڑی جا سکتی ہے۔ عوام کو اس کے علاوہ بھی اپنا کردار ادا کر نا چاہیے کیونکہ جب تک دہشت گردوں کے رابطہ کار اور سہولت کار ختم نہیں ہوتے حالات کی بہتری کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ پاک فوج تو مکمل دفاع کے حوالے سے سرحدوں پر اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کر رہی ہے اب دیگر اداروں کو بھی سنجیدہ ہونا پڑیگا‘پے درپے سانحات  کے بعد تمام متعلقہ اداروں کو فوری حرکت میں آنا چاہیے تھا پھر صوبائی اور وفاقی اداروں کو باہم مل بیٹھ کر منصوبہ بندی کرنی چاہیے تھی۔ بدقسمتی سے ایسی کوئی کوشش تاحال نظر نہیں آسکی ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی غیر سنجیدگی ہے۔ ہم نے دفاعی حصار خود ہی مضبوط بنانا ہے۔ اندرونی طور پر موجود سہولت کاروں کو ختم کرنا ہے اورقوم کایہی مطالبہ ہے کہ لہٰذا خدارا سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے  حالات کی بہتری کے لئے ہمیں اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر بھی نظر ڈالنی ہو گی۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں ازسرنو سکیورٹی پلان مرتب کریں علاوہ ازیں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے قلیل المدتی اقدامات کیساتھ ساتھ طویل المدتی منصوبہ بندی بھی ضروری ہے‘ دہشت گردی کی موجودہ لہر‘ واقعات اور انکے اسباب کو اجتماعی شکل میں دیکھا جانا چاہیے۔بدقسمتی سے انتہا پسندی اور دہشت
 گردی کے معاملے میں ہمارا ملک  فرنٹ لائن پر ہے لہٰذا وفاق کا فرض بنتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کے تحفظ کیلئے فراخدلی کے ساتھ وسائل مہیا کرے تاکہ دہشت گردی کے اسباب کا خاتمہ کیا جا سکے ویسے بھی چونکہ خارجہ امور وفاق کے ہاتھ میں ہوتے ہیں تو سرحدوں بالخصوص پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے اور دراندازی روکنے کیلئے موثر نظام کی تشکیل وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے  یہ کہنا کہ طویل سرحد کو سیل کرنا ممکن نہیں‘ عام لوگوں کو مایوسی کی طرف دھکیلتا ہے اب حکومت کو یہ سرحد محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کرنا پڑیں گے بعض تجزیہ نگار کہتے ہیں ایسے سانحات  انتظامی طور پر اداروں کی کمزوری ظاہر کرتے ہیں آخر کیونکر دہشت گردوں کو منصوبے بنانے‘ ریکی کرنے‘ چھان بین اور پلاننگ کرنے‘ سپانسر اور فنانسنگ میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ یہ حکومتی اداروں کی بدترین ناکامی ہی ہے۔ اگر تواتر کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں تو پھر ریاستی اداروں پر سوالیہ نشان کا لگ جانا لازمی امر ہے  انکے بقول  یہ کہنا بہت آسان ہے کہ سانحہ میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ ہمارے ریاستی اداروں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہر کوئی انفرادی طور پر لگا ہوا ہے۔ ہر ادارہ خود کو ملک سے بھی اہم سمجھتا ہے۔ ہر ادارے کے اہلکار صرف اپنے باس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اس وجہ سے اطلاعات کے تبادلے نہیں ہوتے۔ معاملات تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر کوئی سانحہ رونما ہو جاتا ہے۔ اداروں کو معلومات کے تبادلوں کا پابند بنایا جانا ضروری ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انسانی انٹیلی جنس سسٹم کو متحرک کرنا بھی ناگزیر ہو گیا ہے ان حالات میں سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے بہتر یہی ہوگا کہ وزیر اعظم فی ا لفور تمام سیاسی قیادت کو ایک میز پر بٹھا کر ملک دشمنوں کو واضح پیغام دیں کہ تمام ترسیاسی اختلافات  کے باوجود ملک کے دفاع اوراس کے استحکام کے لئے ہم سب ایک ہیں سیاسی قیادت کو بھی اس موقع پر بالغ نظر ی کامظاہر ہ کرتے ہوئے دشمن کی سازش کوناکام بنانے کیلئے متحد ہونا چاہئے بلیم گیم کے چکر سے بھی نکلنا ضروری ہے کیونکہ چاروں صوبوں میں دہشتگردی کی کاروائیاں ہوئیں جہاں اس وقت مختلف جماعتوں کی حکومتیں ہیں چنانچہ وطن عزیز میں امن کی بحالی اوربیرونی سازشوں کے توڑ کے لئے اب مل بیٹھنا پڑے گا اور اس میں مزیدکوئی تاخیر نہیں ہونی چاہیے بصورت دیگر بڑھتی ہوئی بدامنی ہماری سیاست کو نگل سکتی ہے۔