……راستے سفر سے بنتے ہیں!

بانیئ پاکستان قائد اعظم ؒ کی قیادت کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ’مستقبل کو دیکھنے کی صلاحیت‘ رکھتے تھے جبکہ قائد اعظمؒ کے بعد سے میسراکثر قیادت مستقبل کے قابل حصول اہداف کا درست تعین نہیں کر سکی جس کی وجہ سے معاشی و دیگر مسائل بحران کی صورت ہمارے سامنے کھڑے ہیں اور مہنگائی کی شرح میں ہر دن اضافے نے اُن طبقات کو زیادہ متاثر کر رکھا ہے جو یومیہ مزدوری کرتے ہیں اور اُن کی مزدوری کی شرح مستقل لیکن مہنگائی کو قرار نہیں۔ اِس صورتحال میں قوم کو ایسیفیصلوں کی ضرورت جو ملک کے معاشی مستقبل کو محفوظ و مستحکم بنائیں۔اور یہی وہ مرحلہئ فکر ہے جہاں اقوام عالم کے تجربات سے سیکھا جا سکتا ہے۔آٹھ سے نو دہائیاں قبل قائد اعظمؒ نے برصغیر پاک و ہند کی دو بڑی قوموں (ہندو اور مسلمان) کی الگ الگ شناخت کی بنیاد پر الگ مستقبل کا تصور پیش کیا تھا۔یہ الگ بحث ہے کہ بطور قوم ہم نے قائد اعظمؒ کے خوابوں پر کس قدر عمل کیا۔راستے سفر سے بنتے ہیں اور کسی قوم کی زندگی میں سات دہائیوں سے زیادہ کا سفر زیادہ وقت نہیں لیکن زیادہ وقت ہے اگر یہ اپنی غلطیوں سے سبق نہ سیکھے۔ سرد جنگ کے دوران وہ تمام ممالک جو امریکی بلاک کا حصہ بنے انہوں نے یقینی طور پر دو مقاصد حاصل کئے۔ ایک تو وہ محفوظ ہوئے اور دوسرا وہ امیر ہوئے لیکن پاکستان کے معاملے میں امریکی بلاک کا حصہ بننے کے باوجود بھی پاکستان معاشی طور پر خاطرخواہ مضبوط نہیں ہوا۔ وقت ہے کہ قوم اپنے آپ سے پوچھے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی معیشت دیگر ممالک کی طرح مضبوط نہیں یعنی پاکستان نے معاشی ترقی کا اہم موقع کیسے گنوایا؟  روس و امریکہ کے درمیان سرد جنگ سے پہلے‘ سرد جنگ کی افغانستان میں تدفین اور سرد جنگ کے بعد کے مواقع سے ہم نے فائدہ نہیں اٹھایا۔اور اب امریکہ کی توجہ روس یوکر ین جنگ اور چین پر ہے۔پاکستان کو جس قدر جلد ممکن ہو اِس صورتحال سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے یقینا فی الوقت بیرونی مدد کے بغیر مطلوبہ معاشی و سیاسی استحکام حاصل نہیں کیا جا سکتا لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مدد کہاں سے آئے گی؟ امریکیوں نے گزشتہ سات دہائیوں سے جس قدر بھی حمایت اور مدد کی ہے وہ کافی اور ہمہ جہت نہیں تھی۔ اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کی امداد کا بڑا حصہ غیرپیداواری شعبوں کے لئے مختص کیا گیا اور وہ بھی ایسے غیرپیداواری شعبوں کے لئے جن میں بدعنوانی کی شرح بلند ترین تھی۔امریکہ کے علاوہ پاکستان نے دوست ملک چین سے بھی خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا اگرچہ چین کی دوستی کو ہمالیہ سے بلند اور شہد سے زیادہ میٹھی قرار دیا جاتا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے پر اگر پیشرفت کا جائزہ لیا جائے تو یہ توقع سے سست ہے،اِسی طرح اگر ’جمہوری اسلامی ایران‘ سے پاکستان کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو سستی بجلی‘ گیس اور تیل کے ذخائر قرب میں ہونے کے باوجود بھی پاکستان اِس سے فائدہ نہیں اُٹھا رہا۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی سرحد 904 کلومیٹر (562 میل) ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس نو سو کلومیٹر طویل سرحد میں کوئی ایک بھی ایسی راہداری تلاش نہیں کی جا سکی‘ جس کے راستے سستی بجلی‘ تیل و گیس درآمد کیا جا سکے لیکن ہزاروں کلومیٹر دور ممالک سے ایندھن (پیٹرولیم و گیس) درآمد کر کے بجلی پیدا کی جا رہی ہے!جغرافیائی سیاست کا پہلا اصول یہ ہوتا ہے کہ محل وقوع کی اہمیت کو سمجھا جائے۔ چین کے ذریعے قومی خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے میں سست روی سے نقصان ہورہا ہے تو دوسری طرف  ایران کے ساتھ تجارت اور توانائی درآمد کرنے کی دنیا سے اجازت بھی حاصل نہیں کی جا سکی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ماضی میں کھوئے رہنے سے بہتر ہے کہ ہم حالات اور واقعات کے تناظر میں نئی پالیسیاں مرتب کریں اور سب سے بڑھ کر خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے استفادہ کریں اس وقت امریکہ کی توجہ جنوبی ایشیاء سے ہٹ کر یوکرائن اور تائیوان کے مسائل پر مرکوز ہے ایک طرف اگر وہ یوکرائن میں روس کو بے بس کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے تو دوسری طرف چین کو زچ کرنے کے لئے وہ تائیوان کے مسئلے کو ابھارنے کی کوشش کر رہا ہے اگر چہ دونوں محاذوں پر امریکہ کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی روس میں یوکرائن میں اپنے اہداف حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور اس پر معاشی پابندیوں کے اثرات بھی واضح نظر نہیں رہے بلکہ اس کے برعکس روس معاشی طور پر زیادہ مستحکم اور فعال نظر آرہاہے ان حالات میں پاکستان کا روس سے توانائی کے شعبے میں تعاون حاصل کرنا اہم قدم ہے۔