صوبے کے جائز حقوق کا مقدمہ

خیبر پختونخوا کی نگراں کابینہ نے وفاق سے بقایا جات کی وصولی کے لئے حکمت عملی طے کرلی۔صوبائی کابینہ نے این ایف سی اور بجلی کے خالص منافع کے بقایاجات کی ادائیگی کے لئے وزیراعظم اور وفاقی وزیر خزانہ سے رابطہ کرنے کافیصلہ کیا۔ کابینہ کے اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جے یو آئی کے صوبائی قائدین کو بھی اس سلسلے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کرنے پر قائل کیا جائے گا تاکہ صوبے کے  بقایا جات کا حصول ممکن بنایاجاسکے۔محکمہ انرجی اینڈ پاور نے بھی نیپرا کو اپنا فیصلہ نافذ کرنے کیلئے مراسلہ ارسال کردیاجس کے مطابق بجلی کے خالص منافع کی مد میں واپڈا کے ذمے 53 ارب روپے واجب الادا ہیں اور 2015 سے اب تک 182 ارب روپے کے بقایاجات تھے۔وفاق نے 2015 سے اب تک 129 ارب روپے 97 اقساط میں ادا کئے ہیں، 2022 میں وفاقی نے خیبرپختونخوا حکومت کو ایک روپیہ بھی ادا نہیں کیا۔ 2022 میں کل 25 ارب 92 کروڑ 60 روپے بنتے ہیں۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ بجلی کے خالص منافع کی مد میں خیبرپختونخوا کی ریگولر رقم اور بقایاجات فوری طور پر ادا کیے جائیں۔تاکہ صوبے کو معاشی بحران سے نکالا جاسکے۔نگراں وزیر اعلی محمد اعظم خان کا کہنا ہے کہ قابل تقسیم وفاقی محاصل، بجلی کے خالص منافع کی رواں سال کی قسط، بقایاجات اور مختلف محصولات اور ٹیکسوں کی رقم کو بھی شامل کیا جائے تو وفاق کے ذمے خیبر پختونخوا کے 238ارب روپے کے بقایا جات بنتے ہیں۔ جن کا حصول صوبے کا حق ہے اور یہ صوبے کا اجتماعی مسئلہ ہے جس کیلئے سب کو سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر آواز اٹھانی چاہئے۔ صوبہ خیبر پختونخوا نے لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھا رکھا ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ اس صوبے کو نہ صرف اپنے واجب الادا رقومات کی ادائیگی کی جائے بلکہ اس کے ساتھ اضافی مدد بھی کی جائے تاکہ اس صوبے کی مشکلات کا حل نکل آئے‘ اس سے قبل کئی بار صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل جرگہ تشکیل دے کر وفاق کے ساتھ مذاکرات کئے گئے یقین دہانیاں کرائی گئیں۔مگر کوئی حاصل حصول نہیں ہوا۔ موجودہ وقت میں وفاقی حکومت خود معاشی بحران سے دوچار ہے۔ اس مرحلے پر وفاق سے 238ارب کے بقایاجات کی ادائیگی کا مطالبہ بے معنی لگتا ہے تاہم اگر وفاق بجلی کے خالص منافع کی رواں سال کی قسط اور این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کا تین فیصد کا حصہ بھی ادا کرے تو وقتی طور پرجاری اخراجات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد سات قبائلی ایجنسیوں کو بھی خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا لیکن ان کا بجٹ ابھی تک وفاق نے صوبے کو نہیں دیا۔جو قبائلی علاقوں کو فاٹا قانون کے تحت ملتا رہا ہے۔ ان قبائلی علاقوں میں گزشتہ سات عشروں  کے دوران خاطر خواہ ترقیاتی کام بھی نہیں ہوئیجس کی وجہ سے یہ علاقے پسماندہ رہ گئے ہیں، اب ان علاقوں کوملک کے دیگر حصوں کے برابر لانے کیلئے کثیر سرمایہ درکار ہے۔ایسے میں نہ صرف ضروری ہے کہ وفاقی حکومت صوبے کے بقایا جات اداکرنے میں سستی نہ دکھائے بلکہ دوسرے صوبے بھی اپنے حصے کی ادائیگی کریں۔