پھولوں کے شہر میں تعفن

کچھ ادارے اور شخصیات معاشرے کی ناگزیر ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ ان کی موجودگی میں ان کی قدر کم ہی ہوتی ہے لیکن جب وہ نظروں سے اوجھل ہوجائیں تو معاشرتی نظام بگڑ جاتا ہے اور لوگوں کو گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ معاشرے کے ایسے ہی مفید افراد میں صفائی کا عملہ بھی شامل ہے۔ شہر پشاور کی صفائی اور صاف پانی کی فراہمی کے لئے واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز کے نام سے کچھ عرصہ قبل ایک کمپنی قائم کی گئی تھی۔ دستیاب وسائل کے اندر رہتے ہوئے کمپنی کے اہلکار اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ شہریوں کو ڈبلیوایس ایس پی سے یہ شکایات رہی ہیں کہ شہر میں صاف پانی کی فراہمی کا خواب برسوں بعد بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔شہر میں پینے کے پانی کی بیشتر پائپ لائنیں سیوریج لائنوں سے گزاری گئی ہیں۔ لوہے کے پائپ زنگ آلود ہوکر رسنے لگتے ہیں اور سیوریج کا پانی اس میں شامل ہوتا ہے۔ لیبارٹری ٹیسٹ سے ثابت ہوچکا ہے کہ پشاور کی 60فیصد آبادی جو پانی استعمال کرتی ہے وہ انسانی صحت کے لئے مضر ہے۔ شہر بھرکی پائپ لائنیں تبدیل کرنے کے لئے اربوں روپیہ درکار ہے۔صاف پانی کی فراہمی کیساتھ سڑکوں، گلیوں اور نالیوں کی صفائی بھی ڈبلیو ایس ایس پی کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔ جب تک شہرمیں باقاعدگی سے صفائی ہوتی رہی۔ہمیں صفائی کے عملے کی کارکردگی کوئی خاص نہیں لگتی تھی۔ تین چار مہینوں سے تنخواہوں کی بندش کیخلاف عملہ صفائی نے جب ہڑتال کردی تو دو دنوں کے اندر شہر کا نقشہ ہی بدل گیا۔ پشاور شہر سے روزانہ دو لاکھ ٹن سے زیادہ کوڑا کرکٹ نکلتا ہے۔ دو دنوں میں پانچ لاکھ ٹن کوڑا شہر کی سڑکوں، گلیوں اور محلوں میں جمع ہوگیا۔ شہر کے وسط سے گزرنے والی نہریں گندگی سے اٹ گئیں اورنالیاں اُبلنے لگیں اور پورے شہر میں تعفن پھیل گیا۔ تب شہریوں کو اندازہ ہوگیا کہ عملہ صفائی شہر کو صاف ستھرا رکھنے کیلئے کس قدر ناگزیر ہے۔ جب حکام بالانے شہر کی دگرگوں حالت دیکھی توانہیں بھی عوامی مشکلات کااحساس ہونے لگا اور انہوں نے فوری طور پر ہڑتالی ملازمین کیساتھ مذاکرات شروع کردیئے اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ اگلے ایک دو روز میں ملازمین کی تنخواہیں جاری کی جائیں گی۔ اس یقین دہانی پر ملازمین نے وقتی طور پر ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ تاہم واضح کیا ہے کہ مقررہ تاریخ کے اندرتنخواہیں جاری نہ کی گئیں تو وہ دوبارہ ہڑتال پرمجبور ہوجائیں گے کیونکہ ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آئی ہے۔کمر توڑ مہنگائی کے اس دور میں سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کے چھوٹے ملازمین سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ جب وقت پرتنخواہ نہ ملے تو بچوں کی فیس، بجلی اور گیس،مکان کاکرایہ ایک طرف گھر کے چولہے بھی ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔