روابط کی اہمیت

علاقائی تعاون وسیع موضوع ہے‘ جس کے دائرے میں تجارت‘ سفر‘ سیاحت‘ سرمایہ کاری اور موسمیاتی تبدیلیاں آتی ہے اور یہ مجموعی طور پر علاقائی ترقی کے لئے ’بنیادی ضرورت‘ ہے۔ رواں ماہ کے اوائل میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ’گوا (بھارت)‘ میں ہوا جس میں پاکستان نے شرکت کی اور اجلاس کی خاص بات یہ رہی کہ اِس میں وسطی اور جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان روابط کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے اِس بات کا اعادہ کیا گیا کہ ”شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک موسمیاتی تبدیلی جیسے بنیادی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اقدامات کریں گے۔ ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے گا اور ساتھ ہی ساتھ تجارتی روابط و تعلقات کو بڑھانے کے لئے بھی عملی اقدامات کئے جانے چاہیئں۔“دنیا گلوبلائزیشن‘ انفارمیشن‘ جیو اکنامکس اور ’سافٹ پاور‘ جیسے تصورات کے گرد گھوم رہی ہے۔ آج کا دور رابطوں کو منقطع کرنے کا نہیں بلکہ روابط کو بڑھانے کا ہے اور آج ہی کے دور میں اُنہی ملک کی قیادت کو دانشمند سمجھا جاتا ہے جو خود کو جغرافیائی سرحدوں میں محدود نہ سمجھے بلکہ اپنے روابط اور تعلقات کو توسیع دے۔ جب ہم ممالک کے درمیان روابط اور تعلقات کے فروغ کی بات کرتے ہیں تو اِس سے مراد اشیاء  و اجناس کی تجارت‘ ایک دوسرے کی افرادی قوت (ہیومن ریسورس) جیسے وسائل سے استفادہ اور ممالک کے درمیان افراد‘ کاروباری سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کی آزادانہ نقل و حرکت شامل ہے۔ دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں ممالک کے درمیان تعلقات کی وجہ سے ترقی کے نئے امکانات پیدا ہوئے جیسا کہ 1963ء میں اُس وقت کے فرانسیسی صدر ’چارلس ڈی گال (Charles De Gualle)‘ اور مغربی جرمنی کے اُس وقت کے چانسلر ’کونراڈ ایڈنائر (Konrad Adenauer)‘ کے درمیان امن اور دوستی کے تاریخی معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے نتیجے میں یورپ میں ’غیرمعمولی تبدیلی‘ دیکھنے میں آئی اور جس کے نتیجے میں بالآخر یورپی یونین کی تشکیل ہوئی۔ سنگل کرنسی کے آغاز کے ساتھ آزادانہ سفر‘ تجارت اور سازوسامان کی بلا روک ٹوک ترسیل سے یورپی ممالک ایک دوسرے کی ترقی میں اپنی ترقی سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اِسی طرح جب ہم جنوبی اور وسطی ایشیا کے ممالک کے درمیان تعلقات کے فروغ یا اِن ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ دوبارہ جوڑنے کی بات کرتے ہیں‘ تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قدیم زمانے میں کشان (Kushan) بادشاہت اور قرون وسطی یعنی دہلی کی سلطنت اور مغل سلطنت کے دنوں سے‘ قدیم شاہراہ ریشم کے ذریعہ تجارت ہوتی تھی اور اِس طرح یہ دونوں خطوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھا لیکن وسطی ایشیا کی روسائزیشن اور سوویتائزیشن اور برصغیر پاک و ہند میں برطانوی راج کی وجہ سے‘ وسطی اور جنوبی ایشیا کے مابین رابطے کم ہونا شروع ہوگئے پھر سوویت یونین تحلیل ہوئی تو سال 1991ء میں نئی وسطی ایشیائی ریاستوں کے ابھرنے کے ساتھ ہی وسطی اور جنوبی ایشیائی ممالک کو ایک دوسرے سے دوبارہ جوڑنے کے حوالے سے تبصرے ہونے لگے۔ وسطی ایشیائی ریاستوں کے ابھرنے کے بارے میں پاکستان میں نسبتاً کم جوش و خروش پایا جاتا ہے جس کی ایک وجہ یہ مؤقف ہو سکتا ہے کہ پہلے افغانستان میں وسیع البنیاد امن قائم کیا جائے اور افغانستان میں قیام امن کے بغیر وسطی ایشیا کے ساتھ رابطے قائم نہیں ہوسکتے یا قائم نہیں رہ سکتے۔توجہ طلب ہے کہ تیزی سے تغیرپذیر دنیا میں ’سیاسی حقیقت پسندی‘ نے ’آئیڈیلزم‘ کی جگہ لے لی ہے اور یہی وجہ رہی کہ وسطی ایشیائی ریاستوں نے  1996ء میں شنگھائی پنجم کے نام سے تشکیل پانے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت روسی اور چینی اثر و رسوخ کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ سال دوہزارایک میں اس تنظیم کا نام تبدیل کرکے ’ایس سی او‘ رکھا گیا تھا۔ اس سے قبل ’اُنیس سو بانوے‘ میں اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کی تنظیم نو کی گئی جس میں آذربائیجان اور افغانستان کے ساتھ تمام وسطی ایشیائی ریاستیں شامل تھیں۔ پاکستان‘ ایران اور ترکی‘ جو غیر فعال علاقائی تعاون برائے ترقی (آر سی ڈی) کے تین بانی ارکان ہیں‘ نے اس کا نام ’ای سی او‘ رکھنے اور ’نومبر اُنیس سو بانوے‘ میں چھ وسطی ایشیائی ریاستوں کو اِس میں شامل کرکے وسعت دینے کا فیصلہ کیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان طویل عرصے سے وسطی ایشیا میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن افغانستان میں خانہ جنگی اور وسطی ایشیائی حکومتوں کی کم حمایت کی وجہ سے اس میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔وسطی اور جنوبی ایشیا کو جوڑنے کے لئے رابطے کے منصوبے کے تحت دو بڑے اقدامات جن پر اگر اب بھی عمل درآمد کیا جائے تو دونوں خطوں میں معیاری و نمایاں تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ ایک ترکمانستان‘ افغانستان‘ پاکستان بھارت گیس پائپ لائن (تاپی) اور دوسرا وسطی ایشیا‘ جنوبی ایشیا (کاسا ایک ہزار) بجلی کوریڈور نامی منصوبہ ہے‘ موسمیاتی تبدیلی اور اِس کی وجہ سے برفانی تودے پگھلنے جیسے سنگین خطرات کا سامنا اور مقابلہ کرنے کے لئے علاقائی ممالک میں رابطے اور تعاون کی ضرورت ہے کیونکہ ممالک کی سرحدیں تو معلوم ہیں لیکن موسمیاتی اثرات اِن سرحدوں کے پابند نہیں ہیں۔ ہمالیہ‘ قراقرم‘ ہندوکش اور پامیر کے پہاڑی سلسلوں میں پانی کے بے پناہ وسائل موجود ہیں لیکن گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے سے آنے والی چند دہائیوں میں خشک سالی اور قحط جیسے خطرات سنجیدہ توجہ چاہتے ہیں۔ اسی طرح وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان مناسب اور سستے فضائی رابطے کا فقدان ان ممالک کے درمیان زمینی و ریلوے رابطوں کے ساتھ ’بڑا چیلنج‘ ہیں۔