قدیم اور منفرد ثقافتی ورثے کاتحفظ

چترال کے کالاش قبیلے کا موسم بہار کا تہوار چلم جشٹ آج کل اپنے جوبن پر ہے۔وادی کے تین دیہات بمبوریت، رمبور اور بریر میں برپا اس اہم میلے کو دیکھنے کیلئے ملک کے مختلف علاقوں اور بیرون ملک سے بھی سینکڑوں کی تعداد میں سیاح چترال پہنچ چکے ہیں۔کالاش قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگ انتہائی سادہ، بے ضرر، محب وطن اور  علاقہ خود قدرتی حسن سے مالامال ہے‘ لوگ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھر پور انداز میں مناتے ہیں اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ کالاش اس خطے میں سب سے زیادہ خوش باش قبیلہ ہے۔کالاش قبیلہ کب اور کہاں سے آیا اس بارے میں مختلف آرا ء ہیں یہ قبیلہ ایک دور میں چترال پر حکمرانی بھی کرتا رہا ہے اپر اور لوئر چترال کو ملانے والا چیو پل کالاش حکمران سے منسوب ہے۔چلم جشٹ میلے کے دوران یہ قبیلہ مختلف رسومات ادا کرتا ہے۔ نوجوان لڑکیاں اور لڑکیاں اس میلے کے دوران اپنے لئے جیون ساتھی کا چناؤ کرتے ہیں والدین کی طرف سے ان کی پسند میں دخل اندازی نہیں کی جاتی۔کالاش قبیلے کا کہنا ہے کہ چلم جشٹ اور دیگر تہوار ان کی صدیوں پرانی روایات ہیں جو کالاش تہذیب اور ثقافت کا حصہ ہیں اگر ان میلوں کو دیکھنے ایک سیاح بھی نہ آئے تب بھی وہ اپنے تمام تہوار اسی جوش و جذبے سے منائیں گے‘جو سیاح وادی ہندوکش کی اس منفرد تہذیب و ثقافت کو دیکھنے آتے ہیں انہیں صرف تماشائی کی حیثیت سے اس میلے کا لطف اٹھانا چاہئے انہوں نے شکوہ کیا کہ وہ اقلیت ہی سہی۔اس ملک کے شہری ہونے کے ناطے آزادی سے اپنی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کالاش قبیلے کے معاملات میں دخل اندازی کرے۔انکے طرز زندگی‘ رسومات اور روایات پر انگلی اٹھائے‘اکثر سیاح کالاش لڑکیوں کے ساتھ سیلفیاں بنانے اور ان کی نجی زندگی کو موضوع بحث بنانے کی کوشش کرتے ہیں جو انسانی حقوق کے منافی ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ چلم جشٹ اور دیگر تقریبات دیکھنے والے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو میلے کے شرکا میں گھل مل جانے سے روکے۔ تماشائیوں کیلئے جگہ مختص کی جائے‘ کالاش قبیلے کو ملکی سطح پر متعارف کرانے کا سہرا سابق وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کے سرہے۔ 1970کے عشرے سے قبل بالائی چترال کے اکثر لوگوں کو بھی کالاش قبیلے اور ان کی رسومات کے بارے میں علم نہیں تھا۔ آج جتنے ملکی اور غیر ملکی سیاح چترال آتے ہیں ان میں سے 90 فیصد کالاش قبیلے کی رسومات،روایات اور طرز زندگی کا مطالعہ کرنے آتے ہیں۔اپنے منفرد طرز زندگی کاحامل یہ قبیلہ چترال کا اثاثہ ہے اور اس اثاثے کو تحفظ فراہم کرنا حکومت اور انتظامیہ کے ساتھ عوام کی بھی قومی ذمہ داری ہے‘ایسا نہ ہو کہ بے جا مداخلت اور تنگ کرنے کے حربوں سے بیزار ہوکر کالاش قبیلے کے لوگ باہر سے آنیوالے سیاحوں کو اپنے علاقے میں آنے سے روکیں‘تین دیہات میں آباد کالاش قبیلے کی آبادی چند ہزار افراد پرمشتمل ہے۔ جو چترال کی مجموعی آبادی کا صرف دو فیصد بنتا ہے یہ قبیلہ کلاشہ زبان بولتا ہے۔جبکہ 98 فیصد علاقے میں کہوار، گوار باٹی‘ دمیلی‘ پلولہ‘ گاوری‘ دری‘ ملجانی اور دیگر زبانیں بولی جاتی ہیں ہر بولی بولنے والوں کی اپنی رسومات‘روایات‘ ثقافت اور تہذیب و تمدن ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں‘ان ثقافتوں اور رسومات کو تحفظ دے کر ہی سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔یہی تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب کسی قوم کی پہچان ہوتی ہے اور اس پہچان کو برقرار رکھنا ادبی و ثقافتی تنظیموں کیساتھ انتظامیہ اور حکومت کی بھی ذمہ داری ہے۔