پی آئی اے  اور بے نتیجہ اصلاحات

قومی ہوائی جہاز راں ادارے ’پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن (پی آئی اے)‘ نے سال 2022ء کی آمدنی سے متعلق تفصیلات جاری کی ہیں۔ اُنیس مئی دوہزارتیئس کی شام‘ چھ صفحات پر مشتمل یہ دستاویز ’پی آئی اے‘ کی ویب سائٹ (dps.psx.com.pk) سے مفت حاصل (ڈاؤن لوڈ) کی جا سکتی ہے جو ویب سائٹ کی ذیلی شاخ کے ’ڈاؤن لوڈ‘ کا حصہ ہے اور اِس دستاویز کا نمبر 208595 ہے۔ بنیادی طور پر آمدنی کی تفصیلات ’حصص مارکیٹ (پاکستان سٹاک ایکسچینج PSX)‘ کے سرمایہ کاروں کے لئے جاری کی گئی ہیں۔ دل تھام کر پڑھنے والی بات یہ ہے کہ ’پی آئی اے‘ کو ایک سال (بارہ ماہ) کے دوران 97 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ یہ بات اپنی جگہ لائق توجہ ہے کہ پی آئی اے کا خسارہ ہر سال بڑھ رہا ہے۔ عجیب و غریب اعدادوشمار ہیں کہ ’پی آئی اے‘ کی آمدنی گزشتہ برس 88 ارب روپے سے بڑھ کر اِس سال 179.3 ارب ڈالر ہو چکی ہے اور اخراجات میں بھی 100 فیصد سے زائد کمی کا دعویٰ کیا گیا ہے لیکن اِس کے باوجود خسارہ کم نہیں ہو رہا۔ قابل ذکر ہے کہ رواں برس مارچ (دوہزارتیئس) میں ’شہری ہوا بازی کی صنعت (سول ایوی ایشن انڈسٹری)‘ کو اُس وقت دھچکا لگا جب پی آئی اے کے 30 پائلٹوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور اِس سے کمپنی بڑے بحران کا شکار ہوگئی۔ تنخواہوں میں 35 فیصد کٹوتی (کمی) کا فیصلہ معاشی بحران کی وجہ سے کیا گیا‘ جس کا اعلان ہوتے ہی پائلٹس کی نمائندہ تنظیم ”پاکستان ائر لائن پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا)“ نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور تنخواہوں کی کٹوتی کو ظلم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”پائلٹس کو گزشتہ سات سال سے تنخواہوں میں اضافہ نہیں دیا گیا‘ اِس لئے تنخواہوں سے کٹوتی کا فیصلہ واپس لیا جائے۔’پی آئی اے‘ خسارے کی کئی وجوہات میں ضرورت سے زیادہ ملازمین سرفہرست جبکہ غیرمستقل وجوہات (معروضی حالات) میں یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ای اے ایس اے) کی جانب سے قومی ائرلائن پر عائد پابندی شامل ہے‘ جس کی وجہ سے پاکستان ایوی ایشن انڈسٹری کو سالانہ کم از کم دو ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اپریل 2023ء میں ’پی آئی اے‘ نے حکومت سے پنتالیس ارب روپے کے بیل آؤٹ پیکج (مالی مدد) کی درخواست کی تاکہ اِس کے ذمے واجب الاد قرضے کی ادائیگی اور آپریشنز کو رواں دواں رکھا جا سکے۔ قومی جہاز راں ادارہ (ائرلائن) ملکی معیشت پر بوجھ بنا ہوا ہے۔شہری ہوا بازی کی وزارت نے ’تیس جون‘ کو ختم ہونے والے مالی سال کے وقت کہا تھا کہ پی آئی اے کو مالی مدد اُس وقت تک نہیں دی جائے گی جب تک ائر لائن اپنے خسارے کو کم نہیں کرتی اور اِس مقصد کے لئے اصلاحات کر کے آمدن و اخراجات کی کی تنظیم نو نہیں کی جاتی۔ پی آئی اے کو واجب الادأ قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے 22 روپے درکار ہوتے ہیں جبکہ مزید قرض حاصل کرنے کے لئے اضافی خودمختار گارنٹی کی شکل میں پندرہ ارب روپے اور طیارے خریدنے کے لئے سات ارب روپے چاہیئں۔ پاکستان میں ایوی ایشن صنعت کی خستہ حالی کا اندازہ اُس وقت ہوا جب دوہزاربائیس کے دوران ’شیل پاکستان‘ نے کہا تھا کہ ایوی ایشن کا کاروبار اب تجارتی طور پر قابل عمل نہیں رہا۔ اس لئے وہ پاکستان بھر میں اپنے ایوی ایشن آپریشنز بند کر رہا ہے۔ اِس عمل سے متاثر ہونے والے مختلف ہوائی اڈوں میں جناح اِنٹرنیشنل اِئرپورٹ‘ کوئٹہ انٹرنیشنل اِئرپورٹ‘ سکھر انٹرنیشنل اِئرپورٹ اور نواب شاہ اِئرپورٹ شامل ہیں۔ حکومت ’پی آئی اے‘ کی تنظیم ِنو کی خواہاں ہے تاکہ اِس کی کارکردگی کو بہتر اور خسارے کو کم کر سکے لیکن ایسا تبھی ہو گا جب ’پی آئی اے‘ کی خدمات بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوں گی۔ سردست ہونے والی اصلاحی کوششوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور ’پی آئی اے‘ ملازمین کی مسافروں سے خوش اخلاقی و سہولت کاری کی سطح مثالی نہیں۔ اپریل دوہزاراکیس سے جاری اصلاحاتی عمل کا خاطرخواہ نتیجہ بھی برآمد نہیں ہوا ہے۔ قومی ائر لائن کو دو کمپنیوں میں تقسیم کرنے کا بھی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا کیونکہ ایک کمپنی کے ذمے 137ارب روپے اور دوسری کمپنی کے ذمے 457 ارب روپے کے واجبات ہیں اور دونوں کمپنیوں کو اپنے قرض ادا کرنے کے لئے وسائل بھی مہیا کئے گئے لیکن قرض کم ہونے کی بجائے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ دسمبر دوہزارسترہ میں حکومت نے ’پی آئی اے‘ کا پانچ سالہ سود خود ادا کیا تاکہ ائرلائن مالی طور پر مستحکم ہو جائے لیکن یہ کوشش بھی بے سود ثابت ہوئی تاہم پی آئی اے انتظامیہ نے وزیر خزانہ سے درخواست کی کہ مالیاتی تنظیم نو مکمل ہونے تک سود کی ادائیگی کی سہولت میں توسیع کی جائے۔ حکومت نے بجٹ میں سود کی ادائیگی کے لئے پندرہ ارب روپے مختص کئے جبکہ پی آئی اے نے مزید بائیس ارب روپے کا مطالبہ کیا ہے۔ رواں مالی سال کے آغاز پر ’پی آئی اے‘ کو خسارے سے نکالنے کے لئے بتیس ارب روپے کی ضرورت تھی لیکن شرح سود میں اضافے کی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی کی مجموعی لاگت ’بتیس ارب روپے‘ سے بڑھ کر رواں مالی سال کے اختتام تک ’سینتیس ارب روپے‘ ہو جائے گی۔’پی آئی اے‘ کے پاس 29 طیارے اور ساڑھے چودہ ہزار ملازمین ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات کی ائرلائن ’ایمریٹس‘ کے پاس 269 طیارے اور ملازمین کی تعداد 62 ہزار 256 ہے۔ ترکش ائر لائن کے پاس 329 طیارے اور 31 ہزار ملازمین۔ قطر ائرلائن کے پاس 240 طیارے اور 46 ہزار ملازمین ہیں۔ فی طیارہ ’پی آئی اے‘ کے پاس اوسطاً 500 ملازمین ہیں اور ملازمین کا یہ تناسب زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ‘ انتظامی امور میں غفلت  اور کمزوریوں کی وجہ سے ’پی آئی اے‘ کے اخراجات پر قابو پانے کی تمام تر کوششیں کامیاب نہیں ہو پائی ہیں۔