پاک ایران تجارت 

جمہوری اسلامی ایران کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات کی تاریخ ہزاروں سال پرانی اور ایک ایسی مشترک تاریخ ہے‘ جو بیک وقت دونوں ہمسایہ ممالک کے مفاد میں ہے اور اِس سے دونوں ممالک میں قربت اور دوستی میں اضافہ ممکن ہے لیکن افسوسناک ہے کہ ماضی میں پاک ایران تجارتی روابط‘ صلاحیت و امکانات رکھنے کے باوجود بھی غیرمعمولی طور پر کم رہے۔ پاکستان تیئس کروڑ آبادی کے ساتھ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جبکہ ایران قریب آٹھ کروڑ اَسی لاکھ سے زیادہ آبادی کے ساتھ دنیا کا اٹھارواں ملک ہے لیکن اِن دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت عالمی بین الاقوامی تجارت میں معمولی حصہ رکھتی ہے۔ عالمی سطح پر ہر سال 32 کھرب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے جس میں پاکستان اور ایران کے درمیان 2 ارب ڈالر کی تجارت انتہائی کم ہے۔ مزید یہ کہ پاک ایران تجارت کا توازن بھی پاکستان کے حق میں نہیں بلکہ اِس سے ایران نسبتاً زیادہ فائدہ اُٹھا رہا ہے اور اِس کی بنیادی وجہ پاکستان کی پیداواری صلاحیت کم ہونا ہے جو توانائی کی قلت و کمی کے باعث ہے۔ پاک ایران باہمی تجارت کے نسبتاً جمود کا یہ دور ختم ہونے والا ہے۔ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے بلوچستان کے سرحدی علاقے پشین میں ایک بارڈر مارکیٹ کا افتتاح کیا‘ جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان سرحد پار تجارت کو آسان بنانا تھا۔ اِس کے ساتھ گوادر کو ایران سے بجلی فراہم کرنے والی ایک سو میگاواٹ کی گبد پولان پاور ٹرانسمیشن لائن کو باضابطہ طور پر شروع کیا جائے گا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون ترجیحی بنیادوں پر ہونا چاہئے تاکہ پاکستان بھی ایران کے ساتھ تجارت سے فائدہ اُٹھا سکے۔ سال دوہزاربارہ میں پاک ایران قیادت کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت پاک ایران سرحد کے ساتھ منڈیاں قائم کرنے پر اتفاق ہوا تھا اور اِس میں ’پشین سرحدی مارکیٹ‘ بھی شامل ہے۔ تاخیر سے ہونے والے افتتاح سے اِس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ کس طرح پاکستان کے ارد گرد کی دنیا برق رفتاری سے بدل رہی ہے اور پاک ایران تجارت شروع ہونا بلاشک و شبہ چین کی ثالثی میں سعودی عرب و ایران کے درمیان مفاہمت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ جس کے خطے اور وسیع تر اسلامی دنیا پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس اقدام میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ بھی شامل ہے جس کا بنیادی نکتہ ہی تجارت کا فروغ ہے۔ ایران نہ صرف پاکستان کو پیٹرولیم‘ گیس اور بجلی فراہم کر سکتا ہے جو ہماری توانائی کی ضرورت ہے بلکہ یہ تجارت مقامی کرنسی میں ہونے کی وجہ سے بھی دونوں ممالک فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ اس سے پاکستان کو اپنے ہاں توانائی کی کمی دور کرنے اور سستی توانائی حاصل کرنے میں مدد ملے گی اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم ہوگا باالفاظ دیگر اِس نئی شروعات میں پاکستان کی معاشی مشکلات کو مختصر مدت میں کم کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر کام تیزی سے مکمل کیا جائے جو کئی دہائیوں سے التوا کا شکار ہے اور یہ التوا دونوں برادر ہمسایہ ممالک کے لئے نقصان کا باعث ہے۔ امید ہے کہ ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات میں توسیع سے معاشی فیصلہ سازوں کو علاقائی تجارت کے بارے میں اپنے نقطہ نظر پر نظر ثانی کی ترغیب ملے گی۔  بد قسمتی سے ماضی میں سرحدی ممالک کے ساتھ تجارت کی اہمیت کو نظر انداز کر  دیا گیا ہے اور چین پاکستان کا وہ واحد ہمسایہ ملک ہے جس کے ساتھ زمینی تجارت ہو رہی ہے جو دنیا کے بلند ترین پہاڑی گزرگاہوں سے گزرنے والے تجارتی راستے کی وجہ سے چیلنجز رکھتا ہے۔ پاک ایران تجارتی تعلقات میں بہتری سے دونوں ملکوں کے درمیان سفر اور سیاحت کے حجم میں اضافے کی اُمید ہے اور عوام سے عوام کے درمیان بہتر تعلقات بحال ہونے کی بھی اُمید ہے  جبکہ مجموعی طور پر ایران کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات کے امکانات دونوں ممالک کے لئے فائدہ مند ہیں اور اِن کی بحالی سے متعلق کوششوں اور اقدامات کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔