تعلیم کے ساتھ ہنر بھی 

یہ کہناغلط نہ ہوگاکہ آج ہم نے روایتی تعلیم کو محض نوکری کے حصول کاذریعہ بنایاہواہے جس کی وجہ سے ہنرمندی کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں جاتی حالانکہ موجودہ دور میں تعلیم اور ہنر کو کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی میں جو بنیادی اہمیت حاصل ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہی میں نہیں ہمارے ملک میں بھی ماضی میں اس کی نہایت واضح اور روشن مثالیں ہیں۔جہاں تعلیم کے دوران ہی بچوں کی صلاحیتوں اور رجحانات کو بھانپ کر بچوں کو آگے بڑھایا جاتا ہے اور وہ اپنے رجحانات کے مطابق پیشہ اختیار کرتے ہیں اور یوں معاشرے کی ترقی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالتے ہیں۔ لیکن اب ہم صرف دھرتی پر ”ڈگری شدہ“انسانوں کے بوجھ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ تمام ڈگری شدہ نوجوان ملک کو ایک روپے تک کی پروڈکٹ دینے کے قابل نہیں ہیں۔ہمارے ملک میں کریئر گائیڈنس کے لئے باقاعدہ کوششیں ابھی تک شروع نہیں ہوئی ہیں۔ طلباء کریئر کا انتخاب والدین، رشتے دار، اساتذہ اور دوستوں کی مرضی سے کرتے ہیں یا پھر میڈیا کی تشہیر کی بنا پر کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی شعبہ اچھا یا برا نہیں ہوتا، اصل اہمیت چناؤکی ہوتی ہے۔ حالات پر ہی نہیں اپنے مستقبل پر بھی نظر رکھتے ہوئے نوجوان ایسے شعبے کا انتخاب کریں جو ان کی ذہانت، قابلیت اور ذوق و شوق سے ہم آہنگ ہو تو یقینی بات ہے کہ وہ اس پیشے میں نہ صرف ترقی کریں گے بلکہ اس میں زیادہ معاشی فوائد بھی حاصل کر پائیں گے‘ایک زمانہ تھا جب والدین، بچوں کی بے جا فرمائشیں پوری کرنے کے بجائے تعلیم کے حصول کیلئے جدوجہد کرتے تھے۔ مگر موجودہ دور کے والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کے منہ سے نکلی ہر خواہش پوری کی جائے جس کی وجہ سے تعلیم پیچھے رہ گئی ہے۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ انہیں تعلیم کے ساتھ ہنر مند بنایا جائے بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی ہنر ضرور سکھائیں تاکہ ان کا مستقبل روشن ہو۔ آج اگر دیکھا جائے تو والدین اپنے بچوں کی ہر خواہش پوری کرنا اپنا فرضِ اوّلین سمجھتے ہیں۔ اْن کے مہنگے مہنگے شوق پورے کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں جیسے کہ مہنگا موبائل فون، مہنگی سے مہنگی موٹر سائیکل کی فراہمی، ہوٹلنگ وغیرہ۔ بچے کی ایسی کوئی خواہش، کوئی آرزو ادھوری رکھتے ہی نہیں ہیں جسے وہ اپنی محنت کے بل بوتے پر حاصل کرنا چاہے! جبکہ انہیں اپنا شکار خود مار کر کھانے کا عادی بنانا چاہئے۔ تعلیم اور ہنر دینا لازمی ہے باقی سب آپ ہی آپ  آجائے گا۔ مقابلے کے اس دور میں حصولِ معاش آسان کام نہیں ہے۔ پہلے کے زمانے میں اسکولی تعلیم پوری ہونے تک نائی کا بیٹا نائی بنتا تھا، سنار کا بیٹا سنار ہوتا تھا، جولاہے کا بیٹا جولاہا، کسان کا بیٹا کسان، مزدورکابیٹامزدور! الغرض بیروزگاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کوئی بھی پیشہ چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔ جب تک نوکری نہیں مل جاتی تھی بچے آبائی پیشہ اختیار کر چکے ہوتے تھے۔ اب حالات مختلف ہیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی کئی بچے نوکری حاصل کرنے کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ متوقع نوکری کے حصول یابی تک گھر کی گاڑی چلانے کے لئے اگر تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی ہنر حاصل کیا جائے تو کام آئے گا۔ ان شاء  اللہ روزگار کا مسئلہ بڑی حد تک ختم ہو گا۔ اپنے بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ لازماً کوئی نہ کوئی ہنر سکھانا چاہئے۔ماہرین کے مطابق  ہمیں عمومی طرز تعلیم کو تبدیل کر کے مہارت اور ہنر پر مبنی تعلیم دینی چاہیے۔ اس سے ہماری صنعتوں کی ضروریات پوری ہوں گی اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوگاملک کو مختلف بحرانوں کا سامنا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ طالب علم اپنی مرضی سے ایک خاص سطح تک بنیادی تعلیم حاصل کریں۔اس کے ساتھ وہ ایسے ہنر اور مہارتیں سیکھیں جن سے انہیں روزگار ملے یا وہ آگے چل کر خود اپنے کاروبار (انٹرپرینیورشپ) کا آغاز کر سکیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ طالب علم ایف اے، بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کر لیں لیکن انہیں کوئی 10ہزار کی نوکری دینے کے لئے بھی آمادہ نہ ہو۔ ہمارے ملک میں نوجوانوں کی بڑی تعداد ہے اور انہیں اس قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس وہ مطلوبہ مہارتیں نہیں جو مارکیٹ کو درکار ہیں۔ اسی سبب ہمارے ایم فل اور پی ایچ ڈی پاس کرنے والے طلبہ بھی سڑکوں پر بے روزگار پھرتے ہیں۔اس کے برعکس ترقی یافتہ دنیا میں تعلیم کو ضروری علم اور معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اسے روزگار سے نتھی نہیں کیا جاتا۔ بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طالب علم اپنی مرضی کے شعبوں میں کام سیکھتے اور سرٹیفیکیٹس حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح انہیں فوراً کام مل جاتا ہے اور بے روزگاری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اچھے تعلیمی ادارے کے لئے بڑی عمارتوں، انفراسٹرکچر، پروفیسرز کا ہونا ضروری نہیں۔ امریکا اور جنوبی افریقہ کے کچھ علاقوں میں ’گیراج یونیورسٹی‘ کا تصور دیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بڑی عمارت ضروری نہیں، آپ بے شک سو، ڈیڑھ سو طلبہ کو تعلیم دیں، لیکن انہیں ہنرمند اور اپنے کام کا ماہر بنا دیں۔ 25 کروڑ کی آبادی کے ملک کو تعلیم دینے اور ہنرمند بنانے کے لئے ہمیں بھی اس ماڈل پر عمل کرنا پڑے گا۔ بصورت دیگر وہ لوگ جن کے پاس روزگار نہیں ہے، ایک سونامی کی طرح اس نظام کوبہا لے جائیں گے۔ لوگوں کے روزگار کا بندوبست نہ ہوا تو سوشل سٹرکچر کمزور ہو گا، خاندان ٹوٹیں گے، جرائم میں اضافہ ہو گا۔ ارباب اختیار کو چاہیے کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور حل کرنے کے لئے جامع پالیسی تشکیل دی جائے۔ہنرمند افراد کی دل سے عزت کرنی چاہیے، مثلاً پلمبر، الیکٹریشن، مکینک وغیرہ۔ باہر کی دنیا میں ایسے ہنرمند افراد کی بہت قدر ہے اور ان کی آمدنی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے پاس اپنی گاڑی ہوتی ہے، جس میں انہوں نے اپنے اوزار رکھے ہوتے ہیں۔ موبائل فون یا انٹرنیٹ کے ذریعے انہیں پتا چلتا ہے کہ کہاں ان کی ضرورت ہے، وہ ادھر پہنچ کر کام کرتے ہیں اور اپنا معاوضہ لیتے ہیں۔ یہ باعزت روزگار کے ذرائع ہیں جن سے معقول آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ حکومت کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ نوجوانوں کو یہ ہنر سکھا کر سرٹیفیکیٹس دیئے جائیں۔ان کی ایک جگہ رجسٹریشن کی جائے۔ پھر حکومت انہیں تین، چار لاکھ روپے کے قرضے دے تاکہ وہ اس سے اپنے اوزار اور سواری خریدیں اور اپنے کام کا آغاز کریں۔ قرضے کی ادائیگی دس سال میں ہو اور صرف دو فیصد اضافی رقم سروس چارجز کے طور پر وصول کی جائے۔ جب نوجوانوں کو اتنی عزت اور سہولیات ملیں گی تو ملک میں واضح طور پر معاشی بہتری نظر آئے گی۔ ہمیں کام کرنے والے اور رزق حلال کمانے والے کو عزت دینی ہو گی۔ بدقسمتی سے بڑا گھر، بڑی گاڑی، مہنگا موبائل اور لباس، عزت کی علامت بن گئے ہیں، حالانکہ وہ جعلی عزت ہے، ہمیں اخلاقی اقدار کواہمیت دینی ہے اور معاشرے سے حرص کا خاتمہ کرنا ہے۔دیکھا جائے تو اس وقت سب سے زیادہ تعلیمی ڈگریاں رکھنے والے افراد بے روزگار ہیں اور کم تعلیم یافتہ افراد جن کے پاس کسی نوعیت کا ہنر یا مہارت ہے تو وہ برسرِ روزگار ہیں۔ کارخانہ دار کہتے ہیں انہیں اعلیٰ تعلیم کی بجائے ہنر مند ورکرز کی تلاش رہتی ہے۔مہارت کی تربیت ترقی کا راستہ ہے۔