سوشل میڈیا ذہنی صحت کےلئے خطرہ ؟

سوشل میڈیا نے اس وقت دنیا بھر میں پنجے گاڑھے ہوئے ہیں اور شاید ہی کوئی ہو جو اس کے نرغے سے باہر ہو۔سوشل میڈیا کے منفی اثرات کس قدر مہیب ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ امریکہ میں جاری ایڈوائزری سے ہوسکتا ہے۔حال ہی میں امریکہ کے سرجن جنرل ڈاکٹر وویک مرتھی نے نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے استعمال کے اثرات پر ایک نئی ایڈوائزری جاری کی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ نوجوانوں کی ذہنی صحت کو لاحق خطرہ اہم مسئلہ ہے اور سوشل میڈیا کے ماحول کو صحت مند اورمحفوظ بنانے کے لئے اقدامات کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔ ایڈوائزری میں ڈاکٹر وویک مرتھی نے کہا کہ اگرچہ سوشل میڈیا کے کچھ فائدے ہیں تاہم اس بارے میں بہت واضح علامات موجود ہیں کہ سوشل میڈیا سے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی صحت اور عافیت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے ڈاکٹر وویک مرتھی کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا اب تقریبا عالمی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور 13 سے 17 سال کے نوجوانوں میں سے 95 فیصد تک کسی نہ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے استعمال کی رپورٹ د ے رہے ہیں اور ایک تہائی سے زیادہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال تقریباً مستقل طور پر کر رہے ہیں ۔ڈاکٹر وویک کا کہنا ہے کہ بچپن دماغی نشوو نما کے لئے ایک اہم دور ہوتا ہے اس لیے اس دور میں انہیں سوشل میڈیا سے نقصان پہنچنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔سرجن جنرل نے پالیسی سازوں ، ٹیکنالوجی کمپنیوں ، محققین ، خاندانوں اور نوجوانوں ، سبھی کے لئے یہ ہدایت جاری کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال کے اثرات کو بہتر طور پر سمجھیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے زیادہ سے زیادہ فائدے حاصل کریں اور اس کے نقصانات کو کم سے کم کریں ، اور بچوں کی حفاظت کے لئے ایک زیادہ محفوظ اور زیادہ صحت مند آن لائن ماحول تشکیل دیں ۔امریکی سرجن جنرل ڈاکٹر وویک مرتھی کہتے ہیں کہ سب سے عام سوال جو والدین پوچھتے ہیں وہ یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا میرے بچوں کے لئے محفو ظ ہے تو میرا جواب ہے کہ ہمارے پاس اسے محفوظ کہنے کے لئے کافی شواہد نہیں ہیں اور در حقیقت اس بارے میں شواہد بڑھ رہے ہیں کہ سوشل میڈیا کا استعمال نوجوانوں کی ذہنی صحت کےلئے نقصان سے منسلک ہے ۔ان کاکہنا ہے کہ بچوں کو سوشل میڈیا پر نقصان دہ مواد سے واسطہ پڑتا ہے جس میں تشدد اور جنسی مواد سے لے کر دھمکانے اور ہراساں کرنے تک کا مواد شامل ہوتا ہے ۔ اور بہت سے بچے سوشل میڈیا کے استعمال سے اپنی نیند پوری نہیں کر پاتے اور وہ وقت جو انہیں اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ گزارنا ہوتا ہے وہ سوشل میڈیا کی نذر ہو جاتا ہے ۔ سوشل میڈیا کا استعمال بچوں کےلئے کس حد تک نقصان دہ ہے اس کا انحصار اس پر ہے کہ وہ اس کے ساتھ کتنا وقت گزارتے ہیں ، کس قسم کا مواد استعمال کرتے ہیں اور اس سے ان کی نیند اور جسمانی سرگرمی جیسی صحت کےلئے ضروری سرگرمیوں میں کس حد تک خلل پڑتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مختلف بچے سوشل میڈیا سے ، ثقافتی ، تاریخی اور سماجی اور اقتصادی عوامل کی بنیاد سمیت مختلف طریقوں سے متاثر ہوتے ہیں۔جہاں تک اس کے فائدوں کا تعلق ہے تو نوعمر افراد بتاتے ہیں کہ انہیں سوشل میڈیا زیادہ قبولیت کا اور یہ احساس دلانے میں مدد کرتا ہے کہ انکے پاس مشکل وقت میں ساتھ دینے والے لوگ موجود ہیں اور یہ کہ ان کے پاس اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے لئے کوئی جگہ موجود ہے اور اس کی مدد سے وہ اپنے دوستوں کی زندگیوں سے زیادہ باخبر ہوتے ہیں ۔ تاہم ماہرین کے مطابق کچھ بچوں کے لیے سوشل میڈیا کا ضرورت سے زیادہ استعمال پریشان کن ہو سکتا ہے ۔ حال ہی میں ایک ریسرچ سے ظاہر ہواکہ جو بچے ایک دن میں تین گھنٹے سے زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں ان کے لئے ڈپریشن او ر اینگزائٹی جیسے ذہنی مسائل میں مبتلا ہونے کا خطرہ دوگنا ہو جاتا ہے۔ نوجوانوں اور بچوں کو سوشل میڈیا کے نقصان دہ اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے پالیسی سازوں کو محتاط رہنا ہوگا اورپالیسی سازوں کو حفاظتی معیار کو مضبوط بنانے اور سوشل میڈیا کو ہر عمر کے بچوں کے لئے زیادہ محفوظ بنانے کے لئے اس تک رسائی کو محدود کرنے، بچوں کی پرائیویسی کو زیادہ محفوظ بنانے ، ڈیجیٹل اور میڈیا لٹریسی کی معاونت کرنے اور اضافی ریسرچ کے لیے فنڈ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں ۔اس ضمن میں ٹیکنالوجی کمپنیوں کی معاونت اہم ہے ۔ یہ کمپنیاں اپنی مصنوعات کے بچوں پر اثرات کا بہتر اور زیادہ شفافیت کے ساتھ اندازہ لگا سکتی ہیں ، اور اس کے اثرات کی اجتماعی طور پر سمجھ بوجھ بڑھانے کے لئے ڈیٹا کو غیر جانبدار محققین کے ساتھ شئیر کر سکتی ہیں ، اور ایسے ڈیزائن اور فیصلے تشکیل دے سکتی ہیں جن سے بچوں کی پرائیویسی سمیت ان کی حفاظت اور صحت کو ترجیح دی جاسکے ۔ اور سسٹمز کو بہتر بنایا جا سکے تاکہ شکایات کا موثر اور بر وقت رد عمل فراہم کیا جا سکے ۔والدین پر اس سلسلے میں بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھرانوں میں کچھ منصوبے بنا سکتے ہیں مثلا ٹیک فری زون قائم کر سکتے ہیں جو ذاتی تعلقات بہتر بنانے میں مدد کرتے ہیں ، بچوں کو آن لائن ذمہ دار یوں کے بارے میں سکھاتے ہیں ، ان کے ماڈل بنا کر پیش کرتے ہیں ، اور انہیں پریشانی والے مواد اور سرگرمی سے باخبر کرتے ہیں ۔دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے حوالے سے قوانین اس وقت پالیسی سازوں کی توجہ کامرکز ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ سود مند بنایا جائے اورا ن کے جو نقصانات متوقع ہیں تو ان سے بچا جائے۔ جب ترقی یافتہ ممالک جہاں تعلیم کی شرح بہت بلند ہے وہاں پر یہ حالت ہے تو ہمارے ہاں سوشل میڈیا کے ذریعے اذہان کے خراب ہونے کا خطرہ کتنا بڑا ہوگا اس کا اندازہ لگانا ضروری ہے اور اس ضمن میں ہمیں بھی جلد از جلد ایسے قوانین اور قواعد و ضوابط کی طرف جانا ہوگا جس سے سوشل میڈیا کے نقصانات سے بچاﺅ کا راستہ نکل آئے۔