عملی اور روایتی تعلیم میں فرق

ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق نئے تعلیمی سال کے لئے سکولوں میں داخلوں کا جو ہدف مقرر کیاگیا تھا۔ اس کا نصف بھی حاصل نہیں ہوسکا۔ محکمہ تعلیم نے رواں تعلیمی سال کے دوران پشاور اور ضم اضلاع سمیت پورے صوبے میں سکول سے باہر موجود 16لاکھ بچوں کو داخل کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا۔ تمام اضلاع کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسروں کو ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ وہ گلی محلوں، مساجد اور حجروں میں جاکر سکول جانے کی عمر کے بچوں کو داخل کرانے کی کوشش کریں۔ داخلوں کی معیاد ختم ہونے پر معلوم ہوا کہ بوائز سکولوں میں داخلے کی شرح ہدف کے مقابلے میں 50فیصد اور گرلز سکولوں میں صرف 30فیصد رہی۔ صوبے کے ایک ہزار چار سو سکول ایسے بھی ہیں جہاں اس سال کوئی بچہ داخل نہیں ہوا۔صوبے کے 35اضلاع میں سے صرف 9اضلاع میں 80فیصد داخلوں کا ہدف حاصل ہوسکا۔مگر وہاں داخلوں کا ہدف 800مقرر تھا۔بعض اضلاع ایسے بھی ہین جہاں صرف دو ہزار بچوں کو ہی داخل کیا جاسکا۔صوبائی حکومت سرکاری سکولوں میں داخلہ لینے والے بچوں کو کافی مراعات بھی دے رہی ہے انہیں کتابیں، کاپیاں، بستے، یونیفارم اور جیب خرچ بھی دیا جارہا ہے اس کے باوجودوالدین اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کرانے سے کترارہے ہیں۔لوگ اپنے بچوں کو سرکاری سکول بھیجنے کے بجائے مدرسے بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں جو لوگ تھوڑی بہت استطاعت رکھتے ہیں وہ اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں بھیجتے ہیں۔محکمہ تعلیم کو داخلہ اہداف کے حصول میں ناکامی پر اپنے ای ڈی اوز کے خلاف تادیبی کاروائی کے ساتھ اپنے نصاب، طریقہ تدریس کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے علاوہ تدریسی عملہ کی تربیت پرتوجہ دینی چاہئے۔ بدقسمتی سے تعلیم کے شعبے کو گذشتہ سات عشروں میں حکومتوں نے اپنی ترجیحات کی فہرست سے باہر رکھا۔ جس کی وجہ سے سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار روزبروز گرتارہا۔ آج حالت یہ ہے کہ صوبے کے آٹھ تعلیمی بورڈز کے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں سرکاری سکولوں کا کوئی بچہ ٹاپ ٹوینٹی میں بھی جگہ نہیں بناپاتا۔سرکاری سکولوں میں بڑے اچھے ماہرین تعلیم اور بہترین اساتذہ موجود ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔‘سرکاری تعلیمی اداروں پر قومی خزانے سے سالانہ اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔اول تو لوگ اپنے بچوں کو وہاں بھیجنے سے ہچکچاتے ہیں جو بچے داخلہ لیتے ہیں ان کی بڑی تعداد پرائمری لیول پر ہی سکول چھوڑ جاتی ہے۔ میٹرک تک پہنچتے پہنچتے بچوں کی تعداد آدھی رہ جاتی ہے۔اگرچہ تعلیم کا فروغ اور اس کیلئے جامع منصوبہ بندی کرنا نگران حکومت کا مینڈیٹ نہیں ہے تاہم محکمہ تعلیم کے پالیسی سازوں کو اس اہم مسئلے پر توجہ دینی چاہئے۔  سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار بہتر ہوگا تو لوگ خود اپنے بچوں کو وہاں داخل کرائیں گے۔اور اس وقت ضرورت بھی زیادہ سے زیادہ بچوں کو سکولوں میں داخل کرانے کی ہے تاکہ ملک  اور ہماری نئی نسل کا مستقبل روشن ہو۔