پشاور کہانی : سفری سہولیات

پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کے مختلف شعبوں کو فعال رکھنے کے لئے نجی اداروں کی خدمات حاصل کی گئیں جنہیں ’آپریٹرز‘ کہا جاتا ہے۔ اِن ’آپریٹرز‘ ’نے بی آر ٹی‘ کو بہرصورت فعال رکھا ہے جو اپنی جگہ غنیمت ہے اور صورتحال یہ ہے کہ اہل پشاور ’بی آر ٹی‘ کے بغیر سفری سہولیات کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ’بی آر ٹی‘ سے اِستفادہ کرنے والوں کی اکثریت بسوں کی تعداد میں اِضافے اور ’بی آر ٹی‘ کی راہداریوں میں اضافے کی خواہشمند ہے۔ مطالبہ ہے کہ ’سٹی سرکلر روڈ‘ کو کوہاٹ روڈ اور صدر جبکہ مکمل ’رنگ روڈ‘ کو چغل پورہ سے حیات آباد تک جوڑ دینے سے مرکزی راہداری (جی ٹی روڈ) پر مسافروں کا دباو¿ (رش) کم ہو جائے گا البتہ ’بی آر ٹی‘ کے واجبات کی بروقت ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے پشاور کی اِس اہم ترین ’بس سروس (Zu Peshawar)‘ کی معطلی کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ یہ واجبات ’پچاس کروڑ (500ملین) روپے سے زائد کے ہیں اور اگر ’بی آر ٹی‘ معطل ہوئی تو پشاور کے یومیہ ’3 لاکھ‘ مسافروں کا بوجھ اُٹھانے کے لئے ’پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم‘ موجود نہیں ہے اور نہ ہی اِس معیار و سہولت جیسا متبادل نظام موجود ہے۔ (’بی آر ٹی‘ سے متعلق معلومات و خدمات کی تفصیلات حاصل کرنے یا شکایات و آراء درج کرانے کے لئے ویب سائٹ (transpeshawar.pk) سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔)میٹرو بس سروس (Zu Peshawar) بنیادی طور پر 2 نجی کمپنیوں کے ذریعے چلائی جا رہی ہے۔ پہلی کمپنی (ڈیوو پاکستان) کے ذمے بسوں کو فعال رکھنا ہے جبکہ دوسری کمپنی (ایل ایم کے ریسورسز پاکستان) کرائے کی وصولی اور بس اسٹیشنوں کے انتظامات دیکھتی ہے۔ ٹکٹ وصولی کے لئے مصنوعی ذہانت سے لیس (ٹکٹنگ) نظام وضع کیا گیا ہے اور مذکورہ دونوں کمپنیاں اپنی اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں لیکن اِنہیں حسب وعدہ واجبات کی بروقت ادا نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے کمپنیوں کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے کہ اگر واجبات کی ادائیگی میں مزید کچھ عرصہ تاخیر کی گئی تو وہ اپنی خدمات کی فراہمی روک لیں گے جس کی وجہ سے ’بی آر ٹی‘ سروس معطل ہو جائے گی۔ تعجب خیز ہے کہ دو کمپنیوں کے واجبات ’پانچ سو ملین روپے‘ جیسی بلند سطح تک جا پہنچے ہیں‘ جنہیں اگر وقت (معمول کے مطابق) اَدا کیا جاتا تو صوبائی حکومت کو اِس قدر بڑی واجب الاداءمالیاتی ذمہ داری کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ سرکاری کمپنی ٹرانس پشاور‘ جو بی آر ٹی کی مرکزی منتظم ہے کے پاس ادائیگی کے لئے مطلوبہ مقدار میں مالی وسائل (فنڈز) دستیاب بھی ہیں ایسے میں تاخیرسے گریز بہتر ہے۔ڈیوو پاکستان‘ نامی ٹرانسپورٹ کمپنی کی جانب سے بالترتیب ’ستائیس اپریل‘ اور ’سترہ مئی‘ کے روز ’ٹرانس پشاور‘ کے حکام کے ساتھ واجبات کی ادائیگی کے بارے میں بات چیت کی گئی اور اِس بات چیت سے خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہ ہونے کے بعد ’تیئس مئی‘ کے روز ’ڈائیو پاکستان‘ نے نگران وزیراعلیٰ سے درخواست کی کہ وہ مداخلت کرتے ہوئے کمپنی کو اپنے واجبات کی ادائیگی عملاً ممکن بنائیں۔ ’ڈائیو پاکستان‘ کی جانب سے نگران وزیراعلیٰ کو تحریراً لکھا گیا کہ ”آپ کی توجہ ایک اہم مسئلے کی جانب مبذول کی جا رہی ہے جسے اگر فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو یہ پشاور کے عوام کے مفادات پر منفی اثرات مرتب کرے گی اور آپ کے پیش نظر رہے کہ ہر دن 3 لاکھ افراد ’بی آر ٹی‘ کے ذریعے سفر کرتے ہیں اور اگر ہمارے واجبات ادا نہ کئے گئے تو اِن سفری سہولیات اور خدمات کا پہیہ جام ہو جائے گا جبکہ ’بی آر ٹی‘ سے وابستہ افراد کا روزگار بھی ختم ہو جائے گا۔ ’ٹرانس پشاور‘ کے ساتھ متعلقہ معاہدوں کی شرائط و ضوابط کے تحت صوبائی حکومت ہر ماہ کے (زیادہ سے زیادہ) دس دن کے اندر ماہانہ انوائسز کی مد میں ادائیگیاں کرنے کی پابند ہے متعلقہ حکام کو قبل ازیں ستائیس اپریل اور سترہ مئی دوہزارتیئس بھی اِس خدشے سے مطلع کر دیا گیا تھا کہ اگر واجبات ادا نہ ہوئے تو ’بی آر ٹی‘ کی خدمات معطل ہو جائیں گی ’بی آر ٹی‘ کو فعال رکھنے کے لئے ایندھن (ڈیزل و دیگر لبریکنٹس) اور بسوں کے پرزہ جات (پارٹس) کی خریداری کے علاوہ بجلی اور ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنا ہوتی ہیں لیکن اگر ’بی آر ٹی‘ کی آمدنی باقاعدگی سے وصول کی جائے اور اِس کے جاری اخراجات کے لئے مالی وسائل بروقت فراہم کئے جائیں تو خدمات کی فراہمی کا تسلسل رہے گا۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی نجی کمپنی پچاس کروڑ روپے جیسے خطیر واجبات کی عدم ادائیگی کی صورت مالی مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے اور مالی وسائل (فنڈز) کی کمی کی وجہ سے خدمات فراہم کرنے کے قابل نہیں رہ سکتی جس سے عوامی مفاد کا اہم منصوبہ متاثر ہوسکتا ہے۔ڈائیو پاکستان کی طرح ’ایل ایم کے ریسورسیز پاکستان‘ کی جانب سے بھی ’ٹرانس پشاور‘ کے سربراہ (سی اِی او) سے ایک تحریر کے ذریعے درخواست کی گئی ہے کہ وہ کمپنی کے واجبات ’عوامی مفاد‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے ادا کریں کیونکہ ’بی آر ٹی سسٹم‘ کے اٹھارہ سو سے زائد ملازمین ہیں اور ان میں آئی ٹی ایس‘ خودکار کرایہ جمع کرنے اور بس شیڈولنگ سسٹم‘ اسٹیشن مینجمنٹ‘ ڈیٹا سنٹر‘ کنٹرول سنٹر اور دیگر معاون مراکز کے ساتھ ٹکٹوں کی فروخت کے ذمہ دار ذیلی ٹھیکیدار عملہ بھی شامل ہے جو کسٹمرز سروس‘ سیکورٹی اور صفائی کی خدمت سرانجام دیتے ہیں اور یہ بات اپنی جگہ لائق توجہ ہے کہ ذیلی ٹھیکیدار عملے کے ارکان کی اکثریت کم از کم اجرت پر ملازم ہے۔ معاہدے کے تحت ملازمتیں کو ماہانہ ادائیگی ہر ماہ کی پندرہ تاریخ تک کی جائے گی ایک مفاد پشاور کا بھی تو ہے۔ ’بی آر ٹی‘ کی خدمات بلاتعطل و بلاخلل جاری رہنی چاہیئں۔ اُمید ہے کہ اِس سلسلے میں صوبائی حکومت متعلقہ محکمے (ٹرانس پشاور) کو واجبات کی بلاتاخیر (فوری) ادائیگی کا حکم دیتے ہوئے اِس بات کو یقینی بنائے گی کہ مستقبل میںایسے حالات کا دوبارہ سامنا نہ ہو۔