ضرب الامثال اور ہمارے دانشور

حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد 77بتائی جاتی ہے جن میں سے بیس زبانیں خیبر پختونخوا میں بولی جاتی ہیں ان بیس زبانوں میں پشتو، ہندکو اور گوجری کے علاوہ بارہ زبانوں کا تعلق چترال سے ہے جن میں کہوار،دمیلی، کلاشہ، وخی، یدغہ، پلولہ، توروالی، گاوری، دری، منجانی اور گوارباٹی شامل ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ ہر زبان کی اپنی ضرب الامثال ہیں جو صدیوں سے مستعمل ہیں۔یہ ضرب الامثال اس زمانے کے بزرگوں کے کہے ہوئے الفاظ ہیں۔جنہیں ہردور میں استعمال کیاگیا۔اور ہردور کے حالات کے سانچے میں وہ الفاظ فٹ بیٹھتے رہے۔ اُردو کی ضرب الامثال آج بھی زبان زدعام اور مقبول ہیں۔بھینس کے آگے بین بجانا، چور کی داڑھی میں تنکا، گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘سرمنڈواتے ہی اولے پڑنا،سانپ بھی مرے، لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، جیسا کروگے ویسا بھروگے، چراغ تلے اندھیرا اور لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے جیسے عالمگیر صداقت کی حامل ضرب الامثال شامل ہیں۔پاکستان میں بولی جانے والی مقامی زبانوں پشتو، ہندکو،پنجابی، سرائیکی، بلوچی، سندھی، شینا، بروشسکی اور گوجری میں بھی اس سے ملتی جلتی سینکڑوں ہزاروں ضرب الامثال موجود ہیں جو نہ صرف موقع محل کے مطابق بولی جاتی ہیں بلکہ شعراء  نے بھی ان سے بھر پور فیض حاصل کیا ہے۔ان ضرب الامثال میں جو باتیں کہی گئی ہیں وہ  ٹھو س عملی تجربے اور مضبوط مشاہدے پر مبنی ہیں۔وقت بدلا ہے مگر ان محاوروں اور ضرب الامثال کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔پہلے بھی لوگ ان کے ذریعے دوسروں کو نصیحت کرتے اور اب بھی کرتے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ صدیوں پہلے جن لوگوں نے ہردور میں سچ ثابت ہونے والے جو الفاظ کہے تھے۔وہ پڑھے لکھے بھی نہیں تھے۔پھر انہیں اتنی پتے کی باتیں کیسے سوجھیں۔موجودہ دور میں عصری تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہونے کے باوجود کسی بھی قومی، بین الاقوامی اور مقامی زبان میں کوئی ضرب المثل قائم کرنا ہمارے علم میں نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ہماری کم علمی ہو۔تاہم یہ بات طے ہے کہ فہم و دانش کا تعلق تعلیم سے نہیں ہے یہ  قدرت کی ودیعت ہے۔ہمارے ایک ترقی پسند دوست کادعویٰ ہے کہ جس زمانے میں ضرب الامثال بنائی گئیں وہ لوگ فارغ تھے، کوئی کام دھندہ نہیں تھا۔ بیٹھ کر کہانیاں اور ضرب الامثال گڑھتے رہتے تھے۔آج کے دور میں ہر انسان نان نفقہ کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے،سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی، دفتر میں مغز ماری کے بعد گھر آتے ہیں تو بیگم اور بچوں کی فرمائشیں شروع ہوتی ہیں۔کسی پل چین سے بیٹھنے کی فرصت نہیں ملتی، آج کے مصروف انساں کے بارے میں شاعر نے کہا تھا" فکر معاش،عشق بتاں، یاد رفتگاں۔۔۔دو دن کی زندگی میں بھلا کیا کرے کوئی".لے دے کر اہل قلم پر نظریں ٹک جاتی ہیں کہ وہ دور جدید کے حوالے سے ضرب الامثال وضع کریں تاکہ آنے والی نسل یہ نہ کہے کہ ہمارے آباواجداد  پڑھے لکھے ہونے کے باوجود دوچار ضرب الامثال بھی نہیں بنا سکے۔