شہروں میں سبز انقلاب 

پاکستان تحریک انصاف کے دور میں لاہورمیں راوی اربن پراجیکٹ نام سے ایک منصوبہ شروع کیاگیاجس کامقصد لاہور کے قریب ایک نیا اور ماحول دوست شہر بساناتھا اسی بابت انہی کالموںمیں اس وقت کی صوبائی حکومت کی توجہ دریائے باڑہ کی طرف مبذول کراتے ہوئے استدعاکی گئی تھی کہ دریائے باڑہ کو بحال کرکے ا سکے آس پاس ہزاروں ایکڑ اراضی پر نیا شہر آباد کیاجاسکتاہے کیونکہ اب ماحول دوست ماہرین کا کہنا ہے کہ شہروں کو خود کفیل کرنے کےلئے انہیں سبز انقلاب کی ضرورت ہے‘ کیسے؟ بارشی اور آلودہ پانی کی آمیزش کو روک دیں تو شہر سرسبز ہوجائیں گے‘ صاف پانی دوبارہ زیراستعمال آ جائےگا۔آلودہ پانی کو شہر سے باہر لے جائیں اور اسے قدرتی طریقے سے صاف کرکے کسانوں کو دان کردیں‘ شہر کے اندر سبزیوں اور فروٹ کی بھرمار ہوجائیگی کسان شہر کے اناج کی ضروریات پوری کردیں گے۔ شہر کے اندر پانی کے تالاب اور نہریں صاف ہونگی تو اس کے کناروں پر ہونے والے کاروبار کی شان ہی الگ ہے‘ تفریح کی سہولت جہاں ہوگی وہاں شہر کے باسی تو جھمگٹا کریں گے ہی‘سیاح بھی کھنچے چلے آئیں گے۔ کسے پتہ نہیں کہ سیاح کسی شہر میں جاتے ہیں تو اسکے بازاروں‘ گلیوں‘تاریخی مقامات اور آبی گزرگاہوں کی طرف ضرور جاتے ہیںانگریزوں کے دور میں پشاور کے مضافات میں واقع دیہات شیخ محمدی ،شہاب خیل وغیرہ پشاورکے مقامی باشندوں کےلئے سیاحت کاذریعہ ہوا کرتے تھے کیونکہ دریائے باڑہ کی وجہ سے یہ علاقے انتہائی سرسبز وشاداب ہوا کرتے تھے یہاں پر انگور اور لوکاٹ کے بے شمار باغات تھے یہاں کاانگور پورے ہندوستان میں مشہور تھا یہاں بزرگ کے مزار پر ہر وقت سینکڑوں کی تعداد میں مور ہوا کرتے تھے وہ مزار آج بھی طاوس بابا کے نام سے مشہور ہے پشاور کے شہری یہاں آکرپورا پورا دن گذارا کرتے اب بھی ایسا ممکن ہوسکتاہے اگر نہ صرف دریائے باڑ ہ کو بحال کیاجائے اور مقامی کسانوں کی پانی کی ضروریات فی الفور پوری کی جائیں اس سلسلہ میں اسلام آباد کی مثال بھی دی جاسکتی ہے‘ مارگلہ کے دامن سے اترنے والی ندیوں میں کبھی مچھلیا ں تیرتی تھیں۔ اب ان کے پانیوں کی رنگت سیاہی مائل ہے اور سارا سال ان سے تعفن اٹھتا ہے۔ وجہ شہر کی تعمیر کے وقت اسکا نکاسی آب کا بندوبست نہیں کیا گیا تھا۔ بڑی کوٹھیوں میں رہنے والے اپنا استعمال شدہ پانی قدرتی نالوں میں چھوڑ رہے ہیں۔ بہت ساری جگہوں پر انہیں ڈھانک کر عمارتیں تک کھڑی کر دی گئیں ہیں۔ نئے سیکٹر بنے ہیں تو وہاں بھی یہی صورتحال ہے پشاور میں بھی ایسا ہی ہوا منصوبہ بندی کے بغیر جب شہر کے پھیلاﺅ میں شدت آئی اوررہی سہی کسر افغان مہاجرین کے ریلوںنے پور ی کردی تو شہر کاحلیہ ہی بگڑ کررہ گیا وگرنہ یہاں شہری علاقوں میں بھی پن چکیاں ہو ا کرتی تھیں شہر کاایک دروازہ آج بھی سر آسیہ گیٹ کہلاتاہے کیونکہ یہاں بہت بڑی پن چکی ہوا کرتی تھی پن چکی کوہند ی میں آسیہ کہتے ہیں پن چکی کو کب کی شہری تجاوزات کی زد میں آکر نابود ہوچکی مگر نام آج بھی چل رہاہے اسلام آباد کے مقامی باشندے کہتے ہیں کہ انہوںنے بہت ہی شاندار پن چکیاں دیکھیں جو اسلام آباد بننے سے بہت پہلے لگائی گئی تھیں۔ خواتین وہاں پر کپڑے دھوتیں ایک میلے کا سماں رہتا پوری کمیونٹی کی زندگی ان بنائے گئے بندوں کے گرد گھومتی لیکن اسلام آباد کے انڈسٹریل ایریا سے ندیوں میں بہہ کر آنے والے کیمیائی مادے کی وجہ یہ پانی سیاہ ہوچکا تھا‘کرب و جوار میں پانی کی سپلائی کا واحد ذریعہ یہی ندی نالے تھے‘ اب مویشی اور انسان دونوں بیمار ہیں۔ لوگ دعا کرتے ہیں کہ وہاں سے کوئی سڑک گزرے اور انکی زمینوں پر کوئی ہاﺅسنگ سوسائٹی لانچ ہوجائے۔ پیسہ ملے اور وہ شہر منتقل ہوجائیں۔ اگر شہروں سے گزرنے والی آبی گزرگاہوں کو طاقتوروں کے نرغے سے چھڑالیا جائے تو نیچے دیہات میں بسنے والوں کی زندگی میں کتنا انقلاب آجائیگا۔ میں نے ایسے ماہرین دیکھے ہیں جو پانی کو قدرتی طریقے سے صاف کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ انہیں بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرنے کیلئے رقم دیں اور کچھ عرصے بعد یہ پراجیکٹ اپنے پیروں پر خود کھڑا ہوجائیگا۔ ماہرین کے مطابق شہروں اور صنعتی یونٹوں کاآلودہ پانی اگر صاف کر کے سٹور کرلیا جائے تو اس سے نہ صرف سبزیوں اور مچھلی کی پیداوار بڑھائی جاسکتی ہے اور جنگلات اگائے جاسکتے ہیں بلکہ یہی پانی حسب ضرورت گندم کی پیداوار کےلئے کافی ہے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ دس سال میں آبی آلودگی پر قابو پاکر پائیدار معیشت کی بنیاد پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ شہروں کے نزدیک بیکار پڑی لاکھوں ایکڑ اراضی کو زرخیزی لوٹائی جاسکتی ہے اور اسے جنگلات میں بدلاجاسکتا ہے۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی دور میں دی گئی ماہرین کی ایک تجویز پلاننگ کمیشن کی الماریوں میں کہیں سڑ رہی ہے۔ ن لیگ کے پچھلے دور میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ماحولیاتی کمیشن بھی تشکیل دیا تھا اور اسکی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ڈیڈ لائن بھی دی لیکن حکومت بحران کی زد میں آگئی اور یوں یہ معاملہ دب گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اس سے بڑی امیدیں وابستہ تھی۔اس کی قیادت کے ماحولیات کے معاملے پر سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا تھا کہ وہ نوجوانوں پر مشتمل ایک ماحولیاتی فورس تشکیل دے گی پشاور اور اسلام آباد صاف ہوئے کہ ہوئے لیکن یہ فورس مہنگائی کے خلاف بنی ! ماحولیاتی کمیشن بنوانے والی سول سوسائٹی بھی خاموش رہی اور عدالت کا دھیان بھی اس معاملے کی طرف نہ گیا۔ اب دوبارہ ن لیگ اپنے اتحادیوں کے ہمراہ برسر اقتدار ہے لیکن اسے جس طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہوا، ماحولیات پر سوچنے کی کس کو فکر ہے۔ بڑھتا آبادی کا بوجھ ، دیہات کو لپیٹ میں لئے غربت، بے لگام مہنگائی کا بوجھ کسی پر تو پڑے گا؟ اب اس سوال کا جواب نہ تو شہری انتظامیہ کے پاس ہے نہ حکومت کے پاس‘اس وقت جس طرح موسمیاتی تبدیلیوںکے باعث بارشیں ہورہی ہیں ان سے نقصانات تو پہنچ ہی رہے ہیں لیکن اس اضافی پانی کو جمع کرکے استعمال میں بھی لایاجاسکتاہے پشاور شہر میں ورسک سے آنےوالی کئی نہریںگذررہی ہیں اگر ان نہروں کے پانی کو سیوریج سے محفوظ بناکر صاف رکھنے کا اہتمام کیاجائے تو شہر میں کئی قسم کی تفریح کے نئے مواقع خود بخود پید اہوتے چلے جائیں ساتھ ہی نواحی علاقوں میں بڑی تعداد میں پودے لگانے سے شہر کی فضا اور آب وہوا پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوسکیں گے‘جو اس وقت تباہ حال معیشت‘موسمیاتی تبدیلیوں اور بے ہنگم تعمیرات سے جہنم بناہواہے شہر وں میں سبز انقلاب بپا کرنا مشکل کام نہیں بس خلوص نیت کی ضرورت ہے۔