غذائی تحفظ : بگڑتے حالات 

’نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ‘ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ”اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں (فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن (FAO) اور ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP)) کی جانب سے پاکستان میں غذائی تحفظ کے حوالے سے جو منظرنامہ پیش کیا گیا ہے وہ ’سوفیصد درست‘ نہیں اور اِس گمراہ کن کوشش کا بنیادی مقصد پاکستان پر ’دباو¿‘ ڈالنا ہے جبکہ حکومت اِس ہتھکنڈے سے آگاہ ہے۔“ ذہن نشین رہے کہ صرف اقوام متحدہ ہی نہیں بلکہ دیگر ادارے اور تنظیمیں بھی پاکستان میں ’غذائی عدم تحفظ‘ کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں جبکہ پاکستان کی جانب سے اِسے ’سنسنی‘ پھیلانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ حالیہ دعوے ’ایف اے او‘ اور ’ڈبلیو ایف پی‘ کی جانب سے مشترکہ طور پر جاری کردہ دستاویزی رپورٹ میں ذکر ہوئے ہیں جس میں تفصیلاً اور اعدادوشمار کی مدد سے کہا گیا ہے کہ پاکستان اُن بائیس ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں ماہ¿ جون سے نومبر تک شدید غذائی قلت (عدم تحفظ) پیدا ہونے کا امکان ہے لیکن حکومتی ادارے ایسے کسی بھی خطرے کی موجودگی یا امکان کو بھی تسلیم نہیں کر رہے اور کہا جا رہا ہے کہ رواں سال (باقی ماندہ دوہزارتیئس کے دوران) پنجاب و سندھ میں بوائی کا رقبہ زیادہ ہونے اور گندم کی بھرپور فصل کی وجہ سے خوراک کی درآمدات میں کمی آئے گی۔ امید یہ بھی ہے کہ رواں سال پاکستان میں چاول و مکئی کی بھرپور فصلیں حاصل ہوں گی جس کی وجہ سے ’کسان پیکج‘ ہے کیونکہ اِس سے مبینہ طور پر ’زرعی پیداوار‘ میں اضافہ ہوا ہے تاہم صرف اجناس کی ’بمپر فصل‘ سے غذائی عدم تحفظ سے جڑے مسائل حل نہیں ہوں گے کیونکہ مہنگائی (افراط زر) نے بہت سی بنیادی ضرورت کی غذائی اشیا کو اکثریت کی پہنچ سے دور کر رکھا ہے۔ 
اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں نے دنیا بھر میں ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے جہاں غذائی عدم تحفظ بڑھ رہا ہے۔ اِن مقامات کو ’بھوک کے مراکز (hunger hotspots)‘ قرار دیتے ہوئے فہرست میں پاکستان کا نام بھی بطور ’ہاٹ سپاٹ‘ درج کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ”پاکستانیوں کی بڑی تعداد شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہی ہے اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی (جس میں فوری تبدیلی ممکن بھی نہیں ہے) تو آنے والے مہینوں میں غذائی عدم تحفظ سے پیدا ہونے والے جان لیوا حالات میں مزید شدت آنے کا خدشہ ہے۔“ غذائی عدم تحفظ کے ’بگڑتے ہوئے محرکات‘ پاکستان میں معاشی بحران کے حل کی طرف اشارہ کر رہے ہیں‘ جو اِس کے بدتر ہونے اور خوراک کی حفاظت پر اِس کے نقصان دہ اثرات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تقریبا آٹھ لاکھ پاکستانی پہلے ہی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ زیادہ (بمپر) فصلیں اور بوائی کے رقبے میں اضافہ اپنی جگہ حوصلہ افزا عوامل ہیں لیکن انہیں مناسب سیاق و سباق میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور چونکہ زراعت و معاشرت موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں بھی ہے اِس لئے زرعی پیداوار میں مسلسل اضافہ یقینی نہیں۔ زراعت کا شعبہ پیداواری اخراجات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ کاشتکاری کے لئے استعمال ہونے والی اراضی میں کمی کا سلسلہ جاری ہے ۔ جس ملک میں زرعی ترقی کے وسیع امکانات موجود ہیں لیکن وہاں زراعت کو خاطرخواہ اہمیت نہ دی جا رہی ہو تو اِس بات کا امکان صرف کم ہی نہیں بلکہ انتہائی کم رہ جاتا ہے کہ غذائی تحفظ کے حوالے سے پاکستان کی صورتحال آنے والے مہینوں میں تبدیل ہوگی اور غذائی (خوردنی اجناس) کی مقامی پیداوار اِس قدر حاصل ہو گی کہ پاکستان کو اجناس درآمد نہیں کرنا پڑیں گی جسے ’خود کفالت‘ کہا جاتا ہے۔ درحقیقت اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کی مذکورہ رپورٹ میں ایک حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ آئی ایم ایف ’بیل آو¿ٹ‘ تعطل کا شکار ہے اور جب تک پاکستان ’آئی ایم ایف‘ پر انحصار جاری رکھتا ہے تو اِس کی مشکلات حل ہوں گی لیکن حقیقت اِس کے برعکس ہے۔ پاکستان ایک طرف مہنگائی‘ بیروزگاری‘ غذائی عدم تحفظ تو دوسری طرف آئی ایم ایف سے قرض نہ ملنے کی وجہ سے بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں قومی مالی وسائل پر مزید دباو¿ کی وجہ سے حکومت کے لئے کسانوں اور غریبوں کو دی جانے والی امداد (سبسڈی اور کسان پیکج) کی فراہمی برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ دوسری طرف ایک اور مون سون بارشوں کا عرصہ (سیزن) شروع ہونے والا ہے اور گزشتہ برس کی طرح اِس مرتبہ بھی زیادہ بارشوں کا خطرہ سروں پر منڈلا رہا ہے جو ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ تباہی لے کر آتا ہے کیونکہ پاکستان آب و ہوا یعنی موسمیاتی تبدیلی کے نشانے پر ہے اور گزشتہ سال کے سیلاب متاثرین کی امداد و بحالی کا کام بھی ابھی مکمل نہیں ہوا کہ نیا مون سون دستک دے رہا ہے اور ابھی تو پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کی ’روک تھام کے اقدامات‘ بھی کرنا ہیں۔