بڑا بجٹ: بڑی توقعات

نئے مالی سال (دوہزار تیئس چوبیس) کا خاکہ واضح ہو رہا ہے اور وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ بجٹ سے ملک میں تعمیروترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو‘ جو روزگار کے مواقعوں اور معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی صورت معاشی دباؤدور کرنے میں بڑی حد تک مددگار ثابت ہو سکتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں ڈھائی کھرب روپے کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دی گئی ہے جس میں ساڑھے نو سو ارب روپے کا وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پلان (پی ایس ڈی پی کہلانے والی ترقیاتی حکمت عملی) بھی شامل ہے ’پی ڈی ایس پی‘ کو ابتدائی طور پر سات سو ارب روپے رکھنے کا تخمینہ لگایا گیا تھا لیکن وزیر اعظم کی ہدایت پر اِس میں اضافہ کیا گیا ہے جو قابل تعریف ہے۔ ملک میں عام انتخابات سے قبل پیش ہونے والے اِس بجٹ سے وابستہ بڑی توقعات میں ترقیاتی اخراجات اور ریاستی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں اضافے جیسے پہلو شامل ہیں۔وفاقی بجٹ کے اہداف و مقاصد میں برآمدات کا فروغ بنیادی نکتہ ہے اور اِسی کی ذیل میں نوجوانوں کی فلاح و بہبود پر خاص توجہ بھی مرکوز کر گئی ہے تاہم عالمی سطح پر معاشی بحران کے سبب اِس بات کا امکان نہیں کہ بجٹ مندی کا شکار عالمی منڈی کے ماحول کو تبدیل کر سکے اور اِس سے برآمدات کو فروغ ملے۔ فیصلہ سازوں کو جو کچھ بھی کرنا ہے وہ ملک کے اندر موجود وسائل کی ترقی اور خودانحصاری کے لئے قومی پیداوار میں اضافہ ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی صارفین کے لئے ’اچھی خبر‘ ہو سکتی ہے لیکن یہ دنیا بھر میں طلب میں کمی کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ یہ نکتہ اپنی جگہ لائق توجہ ہے کہ جب پاکستان میں 
 بجلی و پیٹرولیم مصنوعات کا استعمال کم ہو رہا ہے تو ایسی صورت میں درآمدات میں اضافہ کس طرح ممکن ہوگا۔ نئے مالی سال کے لئے شرح نمو کا ہدف ساڑھے تین فیصد رکھا گیا ہے جو قبل ازیں شرح نمو کا قریب نصف ہے جبکہ مہنگائی (افراط زر) کا ہدف اکیس فیصد رکھنے کی کوشش ایک ایسا فیصلہ ہے جسے عملی جامہ پہنانا آسان نہیں ہوگا۔  امید تھی کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کی بحالی سے اُمیدیں نہ رکھتے ہوئے اپنے وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے مسائل کے حل پر توجہ دینی ہوگی جس میں زرعی شعبہ خاص اہمیت کا حامل ہو گا لیکن ’آئی ایم ایف‘ سے اُمیدیں وابستہ ہیں اور یہ بات وزارت خزانہ کے فیصلہ ساز تسلیم کر چکے ہیں کہ ’آئی ایم ایف‘ کے علاؤہ معاشی بحالی کا کوئی ’پلان بی‘ موجود نہیں۔ نیک نیتی کے طور پر حکومت نے بجٹ کی چیدہ چیدہ تفصیلات آئی ایم
 ایف کو ارسال کی ہیں۔ پارلیمان سے قبل بجٹ کی اِس طرح ’آئی ایم ایف‘ سے منظوری لینے میں کوئی حرج نہیں لیکن ’آئی ایم ایف‘ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ حکومت ترقیاتی اخراجات میں اضافہ کرے اور لازماً آئی ایم ایف کی جانب سے اِن ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کا مطالبہ سامنے آئے گا۔ ایک رائے یہ ہے کہ ترقیاتی بجٹ کا حجم زیادہ کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ کم سے کم ترقیاتی بجٹ کی بھی منظوری دے تو وہ پاکستان میں ترقیاتی انقلاب کے لئے کافی ہو‘ پاکستان کو آئندہ مالی سال میں قرضوں کی ادائیگی کے لئے تین ارب ڈالر چاہیئں لیکن یہ رقم اگر ترقیاتی عمل کی قربانی دے کر حاصل کی جاتی ہے اور دوسو سے زائد سرکاری خزانوں کا خسارہ بھی کم نہیں کیا جاتا جبکہ گردشی قرض ہر دن بڑھ رہا ہے تو ایسی صورت میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے آپسی تعلق و کردار کی مزید آزمائش کی بجائے اِسے آزمانا ہوگا‘ بصورت دیگر بڑے بجٹ سے وابستہ بڑی توقعات پوری نہیں ہوں گی۔