ایم ٹی آئی ایکٹ کے خاتمے کی تجویز

 ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کی نگراں حکومت نے سرکاری تدریسی ہسپتالوں کو مالی اور انتظامی لحاظ سے خود مختار بنانے کی پالیسی رول بیک کرنے اور ایم ٹی آئی ایکٹ ختم کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔ صوبائی اسمبلی کی غیر موجودگی میں ایم ٹی آئی کے خاتمے کے لئے محکمہ قانون، محکمہ صحت اور اسٹبلشمنٹ ڈپارٹمنٹ سے رپورٹ طلب کرلی گئی ہے۔ ایم ٹی آئی ایکٹ کے ساتھ مختلف ہسپتالوں کے بورڈ ممبران اور سربراہوں کو بھی فارغ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ضرورت پڑنے پرآرڈیننس بھی جاری کیاجاسکتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں سابقہ نظام کی بحالی کے لئے سفارشات مرتب کرکے نگراں صوبائی حکومت سے اس کی منظوری لی جائے گی۔خیبر پختونخوا کے سرکاری تدریسی ہسپتالوں کو ایم ٹی آئی کا سٹیٹس دینے کا فیصلہ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت نے کیا تھا۔ جس کے تحت لیڈی ریڈنگ ہسپتال، خیبر ٹیچنگ ہسپتال، حیات آباد میڈیکل کمپلیکس، پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی، مردان میڈیکل کمپلیکس، سیدو ہسپتال سوات ، ایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آباد سمیت صوبے کے بڑے ہسپتالوں کو مالی اور انتظامی لحاظ سے خود مختار بنایاگیا تھا۔ یہ ہسپتال سرکاری گرانٹ کے علاوہ اپنے وسائل خود جنریٹ کرتے ہیں۔تمام ہسپتالوں میں سینئر ڈاکٹروں کو شام کے اوقات میں پرائیویٹ پریکٹس کی سہولت مہیاکی گئی ہے جس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا چالیس فیصد ہسپتال کے فنڈ میں جمع ہوتا ہے۔ ایم ٹی آئی
 سٹیٹس ملنے کے بعد ہسپتالوں کا انفراسٹرکچر بھی تبدیل کردیا گیا اور انہیں جدید سہولیات سے آراستہ کرنے کے علاوہ صفائی کے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔اگر اس نظام میں کچھ خرابیاں ہیں تو ان کی نشاندہی کے بعد خرابیوں کو دور کرنے کے اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ اگر ایم ٹی آئی کا نظام عوام اور ہسپتال کے ملازمین کے مفاد میں ہے تو اسے بیک جنبش قلم ختم کرنا مناسب نہیں۔ انسان کے بنائے ہوئے نظام میں وقت گزرنے کے ساتھ خامیاں بھی سامنے آتی ہیں اور ہر ادارے میں بہتری اور اصلاحات کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ترقیافتہ ممالک میں یہ سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے اور اداروں میں اصلاحات کا عمل اس حوالے سے اہم ہے کہ اس کے نتیجے میں عوام کو خدمات اور سہولیات کی
 فراہمی میں تیزی آسکتی ہے تعلیم اور صحت وہ دو اہم شعبے ہیں جن سے عوام کا براہ راست واسطہ پڑتا ہے اور ان شعبوں کی بہتری یا ابتری سے عام شہری متاثر ہوتا ہے ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں کا بننا اور اس کے گرنے میں انہی دو شعبوں میں حکومتی کارکردگی اہم کردار ادا کرتی ہے وہاں پر لوگ تعلیم اور صحت کے حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت کے ایجنڈے کو پرکھنے کے بعد ہی ووٹ دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہاں پر جو بھی سیاسی جماعت عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو تعلیم اور صحت کے شعبے کو مدنظر رکھتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر حکومت بہتری اور عوام کے مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرتی ہے موجودہ حکومت نے بھی اسی تناظر میں قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہوگا تاہم بہتر اور مناسب یہی ہے کہ اس حوالے سے تمام ممکنات کو مدنظر رکھا جائے کہ جو ڈھانچہ محنت اور سرمائے سے کھڑا کیا گیا ہے وہ ضائع نہ ہو۔