سادگی کی ایک قابل تقلید مثال

فیشن کی دنیا کے سرخیل فرانس سے ایک دلچسپ خبر آئی ہے کہ حکومت نے اپنے شہریوں کو پھٹے پرانے کپڑے اور جوتوں کو پھینک کر نئے خریدنے کی بجائے انہیں مرمت کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے ایک بونس سکیم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔رواں سال اکتوبر سے یہ بونس ڈسکاؤنٹ کی صورت میں میسر ہو گا جس کی قیمت چھ یورو سے 25 یورو تک ہو گی۔حکومت پانچ سال کے دوران بونس کی فنڈنگ کے لئے 154 ملین یورو مختص کرے گی۔فرانس کی وزیر ماحولیات برانجے کوئلاریہ کا کہنا ہے کہ فرانس میں ہر سال سات لاکھ ٹن کپڑا کوڑے میں پھینک دیا جاتا ہے۔انہوں نے تمام سلائی ورکشاپس اور جوتا بنانے والی کمپنیوں  سے اس سسٹم میں شامل ہونے کی اپیل کی جس کے مطابق حکومت انہیں نئی ہیل لگانے کے لئے سات یورو اور جیکٹ، سکرٹ یا دیگر کپڑوں میں نئی استر یا پیوند لگانے کے لئے 10 سے 25 یورو تک کی چھوٹ دے گی۔اس سکیم کا مقصد مرمت کے شعبے کو سپورٹ کرنا اور نئی ملازمتیں پیدا کرنا ہے۔ وزیر ماحولیات کا کہنا ہے کہ حکومت فیشن کے جدید تقاضوں کو بھی لے کر آگے جانا چاہتی ہے اورصارفین کو نئی اشیا خریدنے کی بجائے ان کی مرمت کرنے کی ترغیب دینے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔فرانس میں پائیدار فیشن کو فروغ دینے والے ایک اور منصوبے ہر اگلے سال جنوری 2024 سے عمل درآمد کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں کپڑے کی صنعت میں شامل ہر شے کے ماحولیاتی اثرات کی تفصیل اس پر درج کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔نئے قوانین کے تحت مینوفیکچررز کو کپڑوں کی تیاری کے لئے پانی کی مقدار، کیمیکلز کے استعمال، مائیکرو پلاسٹک کے اخراج کے خطرات اور اس بات کی تفصیل بھی بتانا ہو گی کہ آیا اس لباس کی تیاری میں کوئی ری سائیکل شدہ ٹیکسٹائل استعمال کیا گیا یا نہیں۔فیشن انڈسٹری فرانس کے سب سے بڑے شعبوں میں سے ایک ہے جس میں گذشتہ سال تقریباً 66 ارب یورو کا کاروبار ہوا اور ہزاروں نوکریاں پیدا ہوئیں۔کہوار زبان کی ایک پرانی کہاوت ہے کہ نئی چیز ایک ہی بار نئی ہوتی ہے پرانی چیز کو ہزار دفعہ نئی شکل دی جاسکتی ہے۔ فرانس والے بھی اسی کہاوت پر چل رہے ہیں۔بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ دنیا گول ہے انسان کوئی غلط کام کرے تو وقتی طور پر خود کو بچا سکتا ہے لیکن گھوم پھر کر وہ واپس اسی مقام پر آئے گا اور غلط ثابت ہوگا۔بعد میں سائنس دانوں نے بھی تجربے کی بنیاد پر ثابت کردیا کہ دنیا واقعی گول ہے۔ مختلف معاشروں میں اقدار اور روایات کچھ عرصہ چلنے کے بعد متروک ہوتی ہیں اور کچھ عرصہ گذرنے کے بعد نئے رنگ و روپ کے ساتھ دوبارہ معاشرے میں اپنی جگہ بناتی ہیں۔گذشتہ چند سالوں کے اندر جینز کے پھٹے پرانے پینٹ پہننے کا فیشن عام ہوگیااور ان کی قیمتیں بھی نئی پتلونوں سے کئی گنا مہنگی تھیں۔اب پیوند اور استر لگے شرٹس، پتلون، شلوار، قمیض، جرابین اور جوتے بازاروں میں نمودار ہوں گے اور نئے فیشن کے نام پر مہنگے داموں ہم پر بیچے جائیں گے۔ خدشہ ہے کہ اگر فرانس کے نقش قدم پر امریکہ اور دیگر یورپی ممالک نے بھی چلنا شروع کیا تو ہمارے ہاں لنڈے کا کاروبار ختم ہوجائے گا۔جو کم آمدنی والے اور غریب لوگوں کے لئے تن ڈھانپنے کا بڑا وسیلہ ہے۔ جہاں سے استعمال شدہ پائیدار اشیاء سستے داموں ملتی ہیں۔ پرانے کپڑوں اور جوتوں کو پیوند لگا کر دوبارہ قابل استعمال بنانے کا یہ فیصلہ بظاہرحکومتی سطح پر ایک معمولی بات لگتی ہے مگر یہ فیصلہ نہایت دور رس نتائج کا حامل ہوگا۔ یہی یورپی قوموں کی ترقی کا راز ہے کہ انہوں نے سادگی کا فیشن بنالیا۔کفایت شعاری کی پالیسی بھی اختیار کی۔ متروک اشیاء کو دوبارہ قابل استعمال بنا کرکروڑوں اربوں ڈالر کی بچت بھی کر رہے ہیں اور روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کررہے ہیں۔سادہ زندگی گذارنا تو ہماری روایت اور انمول ورثہ تھا جسے ہم نے ترک کردیا اور مفلوک و مظلوم و مقہور اور مقروض ہوگئے۔ دوسری قوموں نے سادگی کو اپنا شعار بنایا اور ترقی کی بلندیوں کو چھونے لگے۔ ہماری اسی شاہانہ عادت پر شاعر مشرق نے کہا تھا کہ ”گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی۔ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا۔“۔