یوآن بمقابلہ ڈالر

امریکی ڈالر کے مقابلے میں چینی کرنسی کے ذریعے تجارت میں اضافہ نیک شگون ہے اور خاص طور پر پاکستان کیلئے یہ ایک اہم پیش رفت ہے ۔ جون میں پاکستان نے روس سے ایک لاکھ ٹن خام تیل کی خریداری کے لیے چینی کرنسی کا استعمال کیا۔اگرچہ پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے چینی درآمدات کی کچھ ادائیگی چینی کرنسیمیں کررہا ہے لیکن یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان نے کسی تیسرے ملک سے تجارت کے لئے یوآن کا استعمال کیا۔ چین کے لئے یہ سٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ ڈالر کے مضبوط متبادل کے طور آر ایم بی کے عالمی استعمال پر زور دینا چاہتا ہے۔چند برسوں سے چین کے ساتھ باہمی تجارت کے لئے آر ایم بی کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا امریکی کرنسی پر انحصار کسی حد تک کم ہوا ہے اور ڈالرز میں ادائیگی کے دباﺅ میں بھی کمی آئی ہے۔ چین گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کا سب سے بڑا شراکت دار اور بیرونی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔واضح رہے کہ پاکستان نے مالی سال 2021 میں چین کے ساتھ اپنی کل سالانہ تجارت میں سے کچھ اشیا ءاور خدمات کی تجارت چینی کرنسی یوآن میں کی۔ یہ ادائیگی تقریبا 30 ارب یوآن کی تھی۔ اقوام متحدہ کے کومٹریڈ ڈیٹا بیس کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان سال 2022 میں ہونے والی دوطرفہ تجارت تقریبا 26 ارب ڈالر کی تھی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا ڈالر پر انحصار ایک سال میں 4.5 ارب تک کم ہوا ہے جس کی وجہ سے بیرونی ادائیگیوں کے بگڑتے ہوئے بحران کے دوران زرِمبادلہ کے ذخائر پر دبا ﺅکم ہوا ہے۔ اسی طرح اپریل میں ارجنٹینا نے اعلان کیا کہ وہ اپنے ڈالرز کے کم ہوتے ذخائر کو بچانے کے لئے چینی درآمدات کی ادائیگی یوآن میں کریں گے۔ بلومبرگ نے حال ہی میں کہا کہ ارجنٹینا میں 500 سے زائد فرمز نے درآمدات کی ادائیگی یوآن میں کرنے کی درخواست کی جس کے نتیجے میں 2.9 ارب ڈالرز کے مساوی آر ایم بی میں درآمدات کی باضابطہ اجازت دے دی گئی ہے۔مئی کے مقابلے میں جون کے پہلے عشرے میں ارجنٹینا کی کرنسی مارکیٹ میں یوآن میں لین دین 28 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز تک بڑھ گئی۔لیکن یوآن کرنسی اختیار کرنے کے پیچھے صرف معاشی دبا ﺅیا ڈالرز کی قلت وجوہات نہیں ہیں۔ ممالک مختلف وجوہات کی بنا پر یوآن کی جانب آرہے ہیں۔ کچھ چھوٹی معیشتیں ڈالر سے دوری اختیار کررہی ہیں کیونکہ ڈالر کی قدر میں حالیہ اضافے نے ان کی مقامی کرنسیوں کو کمزور، ان کے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیوں میں اضافہ اور ضروری ایندھن اور خوراک کی درآمدات کو بے حد مہنگا کرکے، ان پر بہت زیادہ بوجھ ڈال دیا ہے۔اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کہ ممالک یوآن جیسی مضبوط، متبادل کرنسیوں کی جانب رخ کررہے ہیں اور علاقائی تجارتی اتحاد قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔وجہ چاہے جو بھی ہو، دنیا بھر میں بین الاقوامی تجارت، ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر اور سرمایہ کاری کے لئے یوآن کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے اور ارجنٹینا، برازیل، جنوبی افریقہ، مشرقِ وسطی اور جنوب مغربی ایشیا جیسے ممالک اور خطے ڈالر پر اپنے انحصار کو کم کرنا چاہتے ہیں۔یقینا آہستہ آہستہ چینی کرنسی کو مزید بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے اپنایا جارہا ہے جس کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ڈالر کے مقابلے میں ایک متوازی تجارتی نظام کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔گزشتہ سال دسمبر میں چین اور سعودی عرب کے مابین پہلی بار یوآن میں تجارت ہوئی۔ عراق اور بنگلادیش نے بھی چین سے تجارتی ادائیگیاں یوآن میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مارچ میں فرانسیسی فرم نے 65 ہزار ٹن ایل این جی کی ادائیگی یوآن میں وصول کی۔چین نے متحدہ عرب امارات سے ایل این جی خریدی جس کی ادائیگی یوآن میں کی گئی۔ اس سے مشرقِ وسطی کے دیگر ممالک کو بھی تقویت ملی کہ وہ ڈالر کے بجائے تیل کی تجارت اپنی باہمی کرنسی میں کریں۔ چین اور برازیل کے مابین بھی معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان تجارت ان کی متعلقہ کرنسیوں میں ہوں گی۔آئی ایم ایف کے اعدادوشمار واضح کرتے ہیں کہ دنیا آہستہ آہستہ ڈالر سے آر ایم بی کی جانب جارہی ہے۔پیپلز بینک آف چائنا کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق چین نے گزشتہ سال بیرونی تجارت کی مد میں 42.1 ٹرلین یوآن 6.1 ٹرلین ڈالرز کی مساوی لین دین آر ایم بی میں کی، 2017 میں یہی اعداد 9.2 ٹرلین یوآن تھے۔ چین کی اشیاءکی مجموعی تجارت کے حجم میں یوآن کا حصہ تقریبا 20 فیصد جبکہ براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری میں یہ 70 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔مالی استحکام کے حصول کے لیے ڈالر کے بجائے یوآن میں بیرونی ادائیگیاں کرنے والے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جس کے ساتھ ہی یہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ مستقبل میں عالمی ادائیگیوں، زرِمبادلہ کے ذخائر، سرمایہ کاری اور فنانسنگ کے لئے یوآن کلیدی کردار ادا کرے گا۔پاکستان چونکہ سی پیک کا حصہ ہے جوکہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اہم جزو ہے اس لیے اگر دنیا کا مالیاتی نظام تبدیل ہوتا ہے تو اس سے پاکستان کو بہت فائدہ ہوگا۔