چترال طوفانی بارشوں کی زد میں 

سلسلہ ہندوکش کے دامن میں پھیلی وادی چترال ایک بار پھر  طوفانی بارشوں کی زد میں آگئی۔طوفانی بارشوں کے بعد چترال کے ایک درجن مقامات پر ندی نالے بپھر گئے جس سے سو سے زیادہ مکانات تباہ اور ان کے ہزاروں مکین کھلے آسمان تلے آگئے۔میرا گرام یارخون، کوغذی، کاری، نیردیت، دنین، رمبور وادی کالاش تباہ کن سیلاب کی زد میں آگئے ہیں۔ ندی نالوں میں طغیانی سے دریائے چترال کی سطح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور دریا کنارے آباد لوگوں کے گھر،دکانیں، دفاتر، باغات اور فصلیں تباہ ہوگئیں شاہی قلعہ کے قریب چنار کے دیوہیکل درخت بھی خوفناک دریائی لہروں میں تنکوں کی طرح بہہ گئے۔متعدد مقامات پر سیلاب نے دریا پر بند باندھ دیئے اور متعدد مقامات پر چترال
 شندور روڈ زیر آب آگیا۔ پل بہہ جانے سے اپر چترال کا ملک کے دیگر حصوں سے زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ ہولناک سیلاب کے دوران کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔انتظامیہ کاکہنا ہے کہ مزید بارشوں اور سیلابوں کا خطرہ ابھی موجود ہے۔ صورتحال معمول پرآنے کے بعد نقصانات کا تحمینہ لگایا جائے گا۔ تاہم غیر سرکاری تخمینے کے مطابق
 عمارتوں، باغات، فصلوں اور مویشیوں کی صورت میں نقصانات کا اب تک کا تخمینہ پچاس کروڑ سے ایک ارب روپے تک ہے۔ فوری طور پر ان لوگوں کو سرچھپانے کیلئے خیمے اور خوراک کی ضرورت ہے جن کا گھر بار سمیت سب کچھ سیلاب برد ہوچکا ہے۔ اوروہ بے گھر اور بے سروسامان ہوچکے ہیں۔توقع ہے کہ وفاقی اور نگراں صوبائی حکومت آفت زدگان کی امداد میں تاخیر نہیں کریگی۔ چترال دو پہاڑی سلسلوں کے درمیان پھیلی ہوئی ساڑھے چودہ ہزار مربع کلومیٹر پر محیط وادی ہے جو رقبے کے لحاظ سے صوبے کاسب سے بڑاضلع ہے۔ان دونوں پہاڑی سلسلوں کے درمیان گلیشیئرز سے پھوٹنے  والا دریا بہتا ہے جو لاسپور، یارخون سے شروع ہوکر ارندو کے مقام پر افغانستان میں داخل ہوتا ہے۔ راستے میں سینکڑوں کی تعداد میں ندی نالے دریا میں گرتے ہیں۔ افغانستان کے علاقے بریکوٹ سے ہوتے ہوئے یہی دریا ورسک کے قریب دوبارہ پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور یہاں اسے عرف عام میں دریاءِے کابل کہا جاتا ہے۔ عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے کئی سالوں سے ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ چترال اورگلگت بلتستان کے گلیشیئرز حدت میں غیرمعمولی اضافے کی وجہ سے کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں تاہم حکومتی سطح پر اس کے تدارک کے لئے ابھی تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے جس کا خمیازہ چترال، سوات، دیر اور گلگت بلتستان کے علاوہ ہزارہ کے عوام کو جانی و مالی نقصان کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔