موبائل فون کے اثرات

آج تقریبا ًہر گھر میں والدین کی طرف سے بچوں کو یہ تنبیہ کی جارہی ہے کہ بیٹا موبائل فون کم استعمال کرو، آنکھیں خراب ہو جائیں گی۔۔آپ جس گھر میں بھی چلے جائیں بچوں کے ہاتھ میں موبائل فون ضرور دیکھنے کو ملتا ہے۔بچوں کو کس عمر میں سمارٹ فون دینا چاہئے یہ بحث کافی عرصے سے چلی آرہی ہے۔ سوشل میڈیا پر آئے دن کئی کہانیاں بھی دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں کہ بچوں نے سمارٹ فون کی مدد سے کبھی پورے گھر کے لیے کھانا آرڈر کر دیا تو کھبی کسی نے گھر ہی بیچنے کے لیے انٹرنیٹ پر اشتہار لگا دیا۔اکثر بچے صبح اٹھتے ہی ماں، باپ، بہن یابھائی کو موبائل پکڑ لیتے ہیں اوررات گئے تک وہ موبائل پر گیم کھیلتے، ٹک ٹاک ،ڈرامے یا کارٹون دیکھتے رہتے ہیں۔اگر اس سے زبردستی فون لے لوتو رو رو کر آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ بچوں کو موبائل فون کی عادت ڈالنے میں والدین کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ماں کھانا پکانے، سالن بنانے، کپڑے دھونے، استری کرنے ، سبزیاں کاٹنے یا سلائی کڑھائی کر رہی ہو تو بچے کو خاموش کرانے کے لئے اسے موبائل فون پکڑا دیتی ہے ماں کو وقتی طور پر سکون سے کام کرنے کا وقت تو مل جاتا ہے مگر بچے کی عادتیں بگڑ جاتی ہیں۔حالیہ طبی تحقیق میں بچوں کی نظر کے مسائل کی بڑی وجہ بھی فون کے زیادہ استعمال کو قرار دیا گیا ہے۔سیول میں واقع چونم نیشنل یونیورسٹی ہسپتال کے ڈاکڑز نے 7 سے 16 سال کے 12 لڑکوں پر اپنی تحقیق کی۔ماہرین نے ان لڑکوں کو روزانہ چار سے آٹھ گھنٹے تک فون استعمال کرنے اور فون کو اپنی آنکھوں سے آٹھ سے 12 انچ کے فاصلے تک رکھنے کو کہا دو ماہ بعد ان میں سے نو لڑکوں میں بھینگے پن کی ابتدائی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئیں۔ماہرین نے اپنی تحقیق سے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مسلسل فون پر نظر رکھنے سے بچوں کی آنکھیں اندر کی طرف مڑنے لگتی ہیں اور بالآخر وہ بھینگے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔اکثر والدین نے یہ اعتراف کیا ہے کہ بچوں سے زیادہ والدین خود قصور وار ہیں جو بچوں کو اہمیت دینے کے بجائے گھر کے کاموں کو اہمیت دیتے ہیں۔اور انہیں فون پکڑا کراپنے گھریلو کاموں میں جت جاتے ہیں اور بچے فون کے عادی بن جاتے ہیں۔بچوں کو کتنی دیر موبائل فون دینا چاہئے اور اس کی لت لگنے سے انھیں کیسے بچایا جا سکتا ہے۔چائلڈ سائیکولوجسٹ سارہ لغمانی نے اس بات پر زور دیا کہ والدین کو بچوں کو اپنے ساتھ جوڑ کر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بھی اپنے سوشل سرکل کو بڑھا سکیں۔ہمارے پاس ایسے بچے آتے ہیں جو کسی بھی چیز پر صحیح سے دھیان نہیں دے پاتے، ایک دم سے غصہ کرنے لگتے ہیں، فون لینے پر رونا شروع کر دیتے ہیں بدتمیزی کرتے ہیں۔بچوں کا دماغ بہت کمزور ہوتا ہے۔ اس عمر میں والدین کوچاہئے کہ اپنے بچوں کے دماغ کو مستقبل کے لیے تیار کریں۔بچے کی دنیا اگر سمارٹ فون کے آس پاس ہی گھومتی رہے گی تو وہ اپنی اصل دنیا نہیں دیکھ سکے گا اور اس سے دور ہی رہے گا۔بچے آج کل سمارٹ فون کو ہی اپنا دوست سمجھنے لگتے ہیں اوراس میں نظر آنے والی دنیا سے خود کو جوڑ لیتے ہیں۔ماہرین نفسیات کے مطابق سمارٹ فون کا استعمال مکمل طور پر ختم کر دینا بھی حل نہیں کیونکہ ایک دم بچوں سے فون لے لینے سے ان کی دماغی صحت پر منفی اثر پڑے گا۔ گھر میں ایسا ماحول بنانا چاہئے۔جس میں والدین بچوں کے سامنے کم سے کم موبائل فون استعمال کریں کیونکہ بچے بڑوں کو دیکھ کر ہی چیزیں سیکھتے ہیں۔ بچوں کو کم فون استعمال کرنے کا تب ہی بولیں جب آپ خود ایسا کرتے ہوں۔بچوں کو پڑھاتے وقت والدین فون کی بجائے بچوں پر دھیان رکھیں۔بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ باتیں کریں۔ ان کے ہاتھ سے فون کھینچنے کی بجائے پیار سے بات کر کے فون لیں۔بچے کو باہر گھومنے لے کر جائیں، انہیں پارک میں دوسرے بچوں سے ملوائیں۔بچوں کو گھر میں ایسی سرگرمیوں میں مصروف رکھیں، جس سے ان کا فون استعمال کرنے کی طرف خیال نہ جائے۔موبائل فون کے مسلسل اور غیر ضروری استعمال کے بچے ہی نہیں، بڑے بھی عادی ہوچکے ہیں۔جس کے ناقابل تلافی سماجی نقصانات سامنے آرہے ہیں۔ آپ کسی بھی گھر کی منظر کشی کریں تو ماں اپنے فون پر مصروف ہے۔ باپ اپنا واٹس ایپ، ٹویٹر،انسٹاگرام یا فیس بک کھول کربیٹھا ہوا ہے۔ بہن بھائی اپنے اپنے موبائل میں گم ہوچکے ہیں۔گھر میں ہوکاعالم ہے۔سب نے کانوںمیں ہینڈ فری ٹھونس رکھا ہے کسی کو آواز دو تو اسے سنائی ہی نہیں دیتا۔کھانا کھاتے ہوئے بھی دائین ہاتھ میں نوالہ اور بائیں ہاتھ میں موبائل ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے والدین بچوں کونصیحتیں کرنا بھول چکے ہیں۔ کسی کام کے لئے صلاح مشورہ اور منصوبہ بندی کرنا پرانی رسم بن کر رہ گئی ہے۔ راہ چلتے اور ڈرائیونگ کرتے وقت بھی لوگ موبائل پر بات کررہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر جان لیوا حادثات بھی رونماہوتے ہیں۔موبائل فون نے جہاں ہماری زندگی میں بہت سی آسانیاں پیدا کردی ہیں۔وہیں اپنے طرز زندگی کوبھی تبدیل کردیا ہے۔ ہماری اقدار بھلا دی ہیں شاید اسی کا نام بیرونی ثقافتی یلغار ہے جس کا ہم غیر ارادی اور غیر شعوری طور پر شکار ہوچکے ہیں۔